ماتحت اکثر گور کھپور آتا رہا، میں سمجھتا ہوں کہ عرصہ تین سال کا ہوا جب میں کسی ضرورت سے گور کھپور اپنے مکرم جناب مولوی سبحان اللہ صاحب کے یہاں آیا تھا، صبح کا وقت تھا اور اس وقت اتفاق سے میرے بزرگ مولوی محمد نصیر صاحب صدیقی بھی بیٹھے ہوئے تھے۔ مولوی سبحان اللہ صاحب کی بہشت کتب کی سیر میں مصروف تھے، ایک کتاب دیکھی جا رہی تھی جو غالباً مشاہیر کے احوال میں بطورِ لغت اور قاموس کے تھی اس میں ایک تذکرہ راجہ بھوج کے متعلق تھا وہ ایسا حیرت انگیز اور سراپا تسخیر ِدلہا تھا کہ ہم سب لوگ اس کے مضامین سے بے حد متأثر ہوئے۔
بالآخر میں نے اپنے دوست سیّد مقبول حسین وصل بلگرامی کو تکلیفِ کتابت دی اور انھوں نے اس عبارت کو جو فارسی میں تھی میری بیاض پر نقل کردیا۔ یہ عبارت اکثر دوستوں نے بہ سبیل تذکرہ جب ترغیب و تبلیغ اسلام کا ذکر آگیا اپنے طور پر لکھ کر محفوظ کرلی۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ راجہ بھوج نے حضرت نبی اُ۔ّمی، رسول و مخبر صادق، سراپا معجزہ فطرت، سراپا صداقت و بشارت، تکمیل دہندہ وحدا۔ّنیتِ حق، عطا کنندہ ۔ُحر۔ّیت و مساوات و اخوت عالم گیر کے معجزہ شق القمر کو ہندوستان میں دیکھا تھا اس نے کچھ لوگوں کو عرب بھیج کر اس کی تصدیق اور اس کے اعتراف سے بہر اندوز ہو کر اسلام قبول کیا۔ نام اس کا شیخ عبداللہ رکھا گیا اور وہ بہت باخدا اور عابد وقت گزرا اور اس کا مزار دھار دار (گجرات) میں ہے۔ میں اس واقعہ پر اپنی جگہ پر اکثر غور کرتا رہا اور لوگوں سے اس کی تحقیق و تفتیش کرتا رہا، مگر کوئی خاص ثبوت مجھ کو میرے اطمینان کے لائق نہیں ملا۔ ہاں! اس مرتبہ جب میں گور کھپور گیا تو بعض کاغذات میں جو ایک میزبان کے دوست کے یہاں گوشہ میں پڑے ہوئے کس مپرسی او رمعدومیت کے تصرفات کا ہر لمحہ انتظار کررہے تھے، ایک کتاب میں جس کا نام اس کے شروع کے صفحات کے نہ ہونے سے نہیں بتا سکتا۔ کتاب صفحہ ۷ سے صفحہ ۱۴ تک بادامی کاغذ پر چھپی ہوئی ہے۔ اس میں اکثر صوفیائے کرام کے تصنیفات اور ضلع اعظم گڈھ، بستی اور گور کھپور کے بعض مرحومین کا ذکر آیا ہے۔ کتاب کا تخاطب ان لوگوں سے ہے جو حق کے پیاسے اور نجات کے بھوکے ہیں اور قدیم ہندو کتب سے وحدا۔ّنیتِ خدا اور رسالتِ محمدی کو ثابت کرتے ہوئے تبلیغ و قبولیت اسلام کے بعض عجیب واقعات بھی مؤلف نے لکھے ہیں۔ نام مؤلف کا معلوم نہیں، ممکن ہے کوئی صاحب گور کھپوری اس کو بتا سکیں۔ یہ دلچسپ کتاب ہے یہ بوسیدہ عمارت کی طرح اپنے نقش و نگار سے اپنی محنت و تلاش کی داد دے رہی ہے، اس کے ستانویں صفحہ پر آخری سطور میں یہ تحریر ہے:
’’مولوی صاحب کا بیان ہے کہ شیخ امید علی جو موضع کو لاوا ماری ضلع اعظم گڑھ کے رہنے والے تھے۔ انھوں نے کہا کہ میں فتح خاں تحصیل دار ضلع اعظم گڑھ کے یہاں طالب علمی کرتا رہا۔ انھوں نے اپنے کتب خانہ کی نگہبانی میرے حوالہ کی تھی۔ میں نے ایک روز ان کتابوں کو دیکھا تو اس میں سے راجہ بھوج کے روزنامچہ کا ترجمہ جو فیضی نے لکھا تھا وہ بھی نکل آیا