تقریر سے جب اس کا معذور عنداللہ ہونا ثابت ہوچکا تو واقعی جواب لکھنے کے وقت اس کی طرف درجۂ وسوسہ تک میں بھی التفات نہیں ہوا کہ آیا یہ ظاہر احکامِ فقہیہ میں بھی معذور ہوگا یا کہ غیر معذور ہوکر مامور بتجدید الایمان یا بتجدید النکاح ہوگا۔
اس لیے میں نے اس کے حکمِ فقہی سے جواب میں تعرض نہیں کیا تھا، بلکہ جواب لکھنے کے مدتوں بعد تک بھی مجھ کو یہ احتمال نہیں ہوا کہ کوئی صاحبِ علم اس کو غیر معذور سمجھیں گے، مگر بعد میں معلوم ہوا کہ گو سب کی نہیں مگر بعض حضرات اکابر کی رائے اس کے ظاہراً وقضاء غیر معذور ہونے کی طرف ہے۔ اس وقت میں نے اس کے حکمِ فقہی کے اظہار کی ضرورت سمجھی اور چوں کہ اس معاملے کا بوجہ مجیب ہونے کے میرے ساتھ ایک گونہ تعلق تھا اور میری رائے اس میں نرم تھی اس لیے میں نے اپنے فتوے پر اعتماد کرنے کو خلافِ احتیاط سمجھ کر دوسرے حضرات سے فتاوی حاصل کیے جن کا اس مقام پر تو (بوجہ کم گنجائش ہونے کے بدون اپنی رائے کو دخل دیے ہوئے) صرف خلاصہ بألفاظہا نقل کیے دیتا ہوں۔ بعد میں کسی موقعہ پر ان کو بعینہا مع ایک مفصل تحریر ایک صاحبِ علم1 کے مرتب کرکے اگر کوئی صاحب شائع کرنے کے لیے مانگیں گے دے دیے جاویں گے، پس ان میں سے سہارن پور کے فتوے کا حاصل یہ ہے کہ ’’صاحبِ واقعہ کا حادثہ ذوجہتین ہے، ایک جہت وہ ہے جس سے فیما بینہ وبین اللّٰہ تعالیٰ اس کو مومن قرار دیا جاتا ہے۔ دوسری جہت ظاہر اطلاق کلمۃ الکفر کی ہے کہ جس پر اس کو مامور بہ تجدید الایمان والنکاح احتیاطاً کیا جاتا ہے اس صورت میں فیما بینہ وبین اللّٰہ تعالیٰ نکاح اول بحالہ باقی ہے۔ لہٰذا اس کی زوجہ کو جائز نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے یا تجدیدِ نکاح سے انکار کرے‘‘، انتھی۔
اور دیوبند کے فتوے کا حاصل یہ ہے کہ ’’اس کو معذور کہنے میں اور حکمِ کفر وارتداد نہ کرنے میں کچھ تردد نہیں ہے اور جب کہ حکمِ کفر وارتداد اس پر صحیح نہیں ہے تو حکمِ بینونتِ زوجہ بھی متفرع نہ ہوگا۔ استحباباً تجدید کرلینا مبحث سے خارج ہے، لیکن ضروری کہنا خلافِ ظاہر ہے‘‘۔ اور اس دوسرے فتوے کی ایک تصدیق کا حاصل یہ ہے کہ ’’عدمِ تکفیر اس قائل کی بحسبِ بیان اس کے کہ بلا اختیار اس سے یہ کلمہ صادر ہوا دیانتاً متفق علیہ ہے، البتہ زوجہ اس کی اگر تصدیق نہ کرے تو غایت یہ کہ زوجہ اس کو حلف دے۔‘‘
اور دہلی کے فتوے کا حاصل یہ ہے کہ ’’جب صاحب واقعہ نے اپنے اختیار اور ارادہ سے الفاظ مذکورہ نہیں کہے ہیں تو وہ بالاتفاق مرتد نہیں ہوا۔ اور چوں کہ ان الفاظ کا اس کی زبان سے صدور خطأ ہوا ہے اور اس صورت میں اتفاقاً کفر عائد نہیں ہوتا، اس لیے اس کو تجدیدِ نکاح یا تجدیدِ ایمان کا حکم بھی نہیں کیا جائے گا، احتیاطاً تجدید کرلینا بحث سے خارج ہے، اس کی