اور ایقان حاصل وکامل ہوگیا۔ لیکن دو خیال سے اس کو باقی رکھا گیا، ایک یہ کہ بہت قریب احتمال ہے کہ بعض کو اس درایت کے مضمون کا علم نہ ہونے سے کچھ وساوس باقی رہتے، دوسرے یہ کہ اس کے ضمن میں میرا اعتقاد جو اپنے اکابر کے ساتھ ہے اس کا علم میرے تمام متعلقین کو بھی صریحاً ومقصوداً ہو جاوے، تاکہ مرورِ زمانہ پر بھی ان میں اس کا تغیر محتمل نہ رہے، فقط۔
حضرت حکیم الامت ؒ نے الامداد محرم ۳۶ھ صفحہ: ۲۱ کا جو حوالہ دیا ہے وہ یہ ہے:
’’ملفوظات ۲۲: ایک صاحب نے جو مولوی اور مجاز تھے ایک عریضہ لکھ کر خدمت والا میں پیش کیا، جس میں یہ مضمون تھا کہ میں اپنے وطن جاتا ہوں اور وہاں فتنے بہت ہیں، آپ کچھ فرما دیجیے تاکہ مجھے اطمینان ہو جاوے، فرمایا کہ میں کیا کہہ دوں؟ ان صاحب نے اس کا جواب دینے میں گنجلک کی۔ آپ نے فرمایا کہ صاف جواب دو اس تحریر کا کیا مقصود ہے؟ اس کے بعد انھوں نے عرض کیا کہ کوئی ایسا لفظ کہہ دیجیے کہ حق تعالیٰ مددگار ہیں، فرمایا کہ یہ تو ایسا امر ہے کہ میں اس کے دریافت کرنے میں آپ کا حاجت مند ہوا اور آپ میرے کہنے سے پہلے اس کو جانتے ہیں، پھر مجھ سے یہ لفظ کیوں کہلایا جاتا ہے؟ پھر فرمایا کہ میرے سامنے سے دور ہو جاؤ، تم کو بات کرنے کا سلیقہ بھی نہیں آیا، اگر دعا کرانی تھی تو صاف لفظوں میں کہا ہوتا کہ دعا کر دیجیے (اس کے بعد ایک صاحب نے ان صاحب کی سفارش کرنی شروع کی تو ان پر بھی لتاڑ پڑی، ’’الامداد‘‘ میں مفصل موجود ہے) اور اس درایت کے درمیان میں ’’الامداد‘‘ بابت صفر ۳۶ھ صفحہ: ۲۹، ۳۰، ۳۱ کا جو حوالہ دیا تھا اس میں حضرت گنگوہی اور حضرت نانوتوی نوراللہ مرقدہما کے تین قصے تفصیل سے ذکر فرمائے ہیں، اول قصہ اس مسئلے میں ہے کہ مجھے اس میں تردد تھا کہ جمعہ کے بارے میں فقہا نے قصبہ کو مصر کے حکم میں کیسے قرار دیا؟ جب کہ حدیث میں صرف مصر کا لفظ ہے اور قصبہ شہر ہے نہیں، پھر لفظِ مصر قصبہ کو کیسے شامل ہوا؟ سو یہ تردد ایک حکایت سن کر رفع ہوا۔
وہ یہ کہ حضرت گنگوہی نور اللہ مرقدہ ایک مرتبہ ایامِ طالب علمی میں گنگوہ کو آتے ہوئے قصبہ تیتروں کے برابر پہنچے تو کسی عامی سے پوچھا کہ یہ گاؤں کون ہے؟ وہ گنوار بولا: ارے! تو کون ہے؟ شہر کو گاؤں کہتا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ شہر غیر گاؤں کو کہتے ہیں اور لغت میں قصبہ کا کوئی جدا نام نہیں، اس میں دو ہی لغت مستعمل ہیں: ایک قریہ اور ایک مصر۔ مجھے یہ روایت پہنچی کہ حضرت گنگوہی کو بھی یہی تردد تھا، مگر جب حضرت ایک قصبہ میں پہنچے جہاں لوگ آپ کو پہچانتے نہ تھے وہاں آپ نے دریافت کیا کہ یہ کون سا گاؤں ہے؟ جواب ملا کہ تجھے سوجھتا نہیں یہ تو شہر ہے، اس وقت حضرت کو بھی شفائے قلب ہوگئی کہ عوام قصبہ کو بھی شہر کہتے ہیں۔