سے کہ جب مولانا جانے کو تیار ہیں تو میں کیا چیز ہوں کہ اپنی جان بچاؤں، غرض سارا مجمع وہاں پہنچا، مگر رنگ بدلا ہوا پایا، نہ کسی نے سلام کیا، نہ کلام کیا اور امامت کے لیے تو کیا پوچھتے۔ نماز سے فراغت ہوئی، ان دوست صاحب نے اعلان کیا کہ وعظ ہوگا، فوراً محلہ کے ایک شخص نے نہایت تندآواز سے کہا کہ وعظ نہ ہوگا، پھر کیا تھا دونوں طرف سے آویزش ہوگئی اور اس قدر شور وغل ہوا کہ خدا کی پناہ! جمعہ کی سنتیں بھی بھول گئے اور اس فرض میں مشغول ہوگئے۔ میں اور مولانا ایک کنارے پر سنتیں پڑھنے لگے، مگر مولانا تو مطمئن اور میں متفکر کہ دیکھئے اس کا کیا انجام ہوتا ہے اور پولیس کا کہیں نام ونشان نہیں، یہاں تک اختلاف کی نوبت پہنچی کہ ایک شخص جاکر منبر پر بیٹھ گیا، یہ سمجھا کہ جب منبر پر میرا قبضہ ہو جاوے گا پھر وعظ کیسے ہوگا اس سے جہل کا اندازہ کرلیا جاوے۔
ایک خان صاحب ہمارے محبین میں اس مزاج کے تھے کہ وہ خنجر لے کر اس منبر نشین پر حملہ آور ہوئے، ایک خان صاحب ٹونک کے جو سنجیدہ مزاج تھے اس وقت موجود تھے انھوں نے حملہ آور صاحب کا پیچھے سے ہاتھ پکڑ لیا کہ یہ کیا کرتے ہو؟ ابھی سب پھنس جاویں گے وہ خفا ہوکر اس مجمع سے چلے گئے اور یہاں شور وغل کی وہی حالت۔ جب میں سنتیں پڑھ چکا اور معلوم کرلیا کہ یہ سارا غیظ اس احتمال پر ہے کہ کہیں وعظ نہ ہونے لگے تو میں نے اس فتنہ کے سرغنہ کو اپنے پاس بلایا، غنیمت ہے کہ وہ آبیٹھے اور نہایت غصے سے کہا: کہیے۔ میں نے کہا کہ کیا تم کو یہ شبہہ ہے کہ وعظ ہوگا؟ سو سن لو! وہ واعظ میں ہوں اور میرا وعظ ایسا ارزاں نہیں ہے کہ کسی کے سر ہوکر کہوں، میں تو بہت خوشامد کراکر وعظ کہتا ہوں اور اس حالت میں تو میں کسی طرح کہہ ہی نہیں سکتا، تم اطمینان رکھو میں ہرگز وعظ نہ کہوں گا، بلکہ اب تو اگر تمام اہلِ محلہ بھی درخواست کریں تب بھی نہ کہوں، تم لڑو مت اور یہ اعلان میرے مشورے سے نہیں ہوا، بلکہ خلافِ مزاج ہوا، یہ سنتے ہی وہ شخص ٹھنڈا ہوگیا اور اس کے ٹھنڈے ہونے سے سب خاموش ہوگئے۔
میں نے بواسطہ دوسرے شخص کے اس کے بعد یہ قول سنا ہے کہ وہ کہتا تھا کہ ان لوگوں کی کیا بات ہے! ان کی تو جوتیا ہم اپنے سر پر رکھ لیں، یہ سارا فساد فلاں شخص کا ہے جس نے اپنی رائے سے اعلان کردیا اور یہ بھی مسموع ہوا کہ وہ لوگ کہتے تھے کہ ہم کو وعظ ہونا ناگوار نہ تھا، بلکہ یہ متغلبانہ تصرف ناگوار ہوا، ہم کو خاص طور پر اطلاع کی جاتی ہم خود حاضر ہوکر وعظ کی
درخواست کرتے، پھر آنے والوں کے لیے خاص طور پر فرش کا، برف کا، شربت کا انتظام کرتے، اس طرح سے ہماری سخت اہانت تھی جو ہم کو گوارا نہیں ہوا، جب فضا میں سکون ہوا ہم لوگ مسجد سے واپس آرہے تھے کہ سب انسپکٹر صاحب مع گارڈ کے راستہ میں ملے کہنے لگے کہ چلئے وعظ کہیے، میں نے کہا۔ سبحان اللہ! کیا موقع پر پہنچے ہیں یہاں تو خون ہو جاتا