تمہید طبع خوانِ خلیل
از حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب مدظلہ
بسم اللّٰہ الرحمن الرحیم
نحمدہ ونصلي علی رسولہ الکریم
اس ناکارہ کو ہمیشہ اپنے اکابر کے حالات کے سننے اور جمع کرنے کا، سوانح لکھوانے کا بہت ہی اشتیاق رہا، ’’تذکرۃ الخلیل‘‘ میں جیسا کہ خود مولانا مرحوم نے بھی تحریر فرمایا اس ناکارہ کے اصرار کو بہت دخل تھا، اسی طرح حضرت رائے پوری نور اللہ مرقدہ، چچا جان ؒ، عزیز مولوی یوسف نور اللہ مرقدہ کی سوانحوں کی تالیف میں اس ناکارہ کا بہت دخل رہا، مگر افسوس کہ ’’تذکرۃ الرشید‘‘ یعنی سوانح قطب العالم حضرت اقدس گنگوہی اور ’’تذکرۃ الخلیل‘‘ جس میں میرے پانچ اکابر کے مختصر حالات ہیں، حضرت مولانا عاشق الٰہی صاحب نور اللہ مرقدہ جو ان دونوں کتابوں کے مصنف تھے ان کے انتقال کے بعد سے ان دونوں کتابوں کی طباعت کا سلسلہ بند ہوگیا۔
ہرچند میں نے مولانا مرحوم کے صاحب زادگان پر اصرار کیا اور تقاضے کیے کہ یہ جواہر پارے، اسی طرح مولانا کی دیگر تصانیف علمی ودینی ذخیرے کے ساتھ ساتھ بہت ہی مقبول عام کتابیں ہیں، مگر ان عزیزوں کو دوسرے قصوں کی وجہ سے ان کی طرف توجہ نہ ہوئی، بالآخر ’’تذکرۃ الخلیل‘‘ تو میں نے گذشتہ سال عزیزم مولوی حکیم محمد الیاس سلمہ پر تقاضا کرکے طبع کرائی تھی، اور اس سے پہلے جناب الحاج متین احمد صاحب سے بھی کئی سال سے تقاضا کررہا تھا اور وہ اس کا اہتمام بھی کر رہے تھے، مگر حالات کی ناسازگاری سے طبع نہ ہوسکی، لیکن بحمد اللہ گذشتہ سال وہ بھی طبع ہوکر شائع ہوچکی، لیکن ہند وپاک میں کتابوں کی آمدورفت بند ہے اور حکیم الیاس صاحب کی مطبوعہ قریب الختم ہے، اس لیے میں نے ان کویہ مشورہ دیا تھا کہ اس کے ساتھ ’’خوانِ خلیل‘‘ جو حضرت حکیم الامت مولانا شاہ اشرف علی صاحب ؒ نے حضرت سہارن پوری کے وصال پر ایک مختصر سا رسالہ تالیف فرمایا تھا وہ بھی بطورِ ضمیمہ کے شائع کردیا جائے، لیکن میری حیرت کی انتہا نہ رہی جب کہ دو ہفتے مختلف احباب کو اس کے ڈھونڈنے کی تکلیف گوارا کرنی پڑی اور بڑی مشکل سے ملی۔
اس کے سننے سے یہ معلوم ہوا کہ اس میں تو حضرت حکیم الامت نے کوزہ میں دریا کو بند کر رکھا ہے اور نہایت اختصار کے ساتھ جام میں اپنی دوسری تالیفات کا حوالہ فرما دیا، اس لیے میں نے ’’خوانِ خلیل‘‘ کو سنتے وقت ان حوالہ جات کو بھی تلاش کرایا اور ان میں سے جو عام فہم اور محتاج الیہ تھے ان کو تو بطورِ ضمائم کے اس پر نقل کرا دیا، اور جو بہت طویل مضمون