کہ اپنے پاک گھر کا مجھ کو حاجی پھر خدا کر دے
منیٰ میں جب کفن اترے تو میرا فاطر ہستی
حیات طیبہ کا خلعت تازہ عطا کر دے
اڑالے جائے پھر سوئے حرم مجھ کو مری حسرت
کہ بلبل گل کے آگے آخری ماجرا ادا کر دے
تمنا ہے مری چشم ارادت دل کا سرمایہ
نثار آستیں شاہد مشکین قبا کر دے
گزر کر عشق وشورش کے منازل سے چلوں طیبہ
تو وہ حسن آفریں ادائیں دلربا کر دے
حبیب کبریاکی بزم محبوبی میں جا پہنچوں
کرم پھر مجھ پہ اتنا وہ حبیب کبریا کر دے
جہاں سے گنبد خضرا نظر آئے ان آنکھوں کو
کوئی اپنے قصیدے کی وہیں سے ابتدا کر دے
درودوں کے ترنم سے صدائے بازگشت اٹھے
پہاڑوں کو نبی کا نعت خواں‘ محو ثنا کر دے
نظر جس وقت آنکھوں کو میری باب السلام آئے
نکل کر جان قالب سے ادب کا حق ادا کر دے
یہ وہ در ہے جہاں لاکھوں ملائک سربسجدہ ہیں
دعا یہ ہے کہ توفیق ادب مولیٰ عطا کر دے
کو ئی مجھ سے بتائو میں وہاں پہنچوں تو کیا ہو گا
وہیں کا ہو رہوں بس یہ کرم مجھ پر خدا کر دے
گل خوبی نہیں‘ گلزار خوب بلکہ جو کچھ ہے
اسی کا مجھ کو مولا بلبل شیریں نوا کر دے
درودوں کے تحائف پیش کر کے میں کہوں اس سے
کہ اے شاہ دو عالم مجھ کو طیبہ کا گدا کردے
تیرے کوچہ میں گو رہنے کے قابل میں نہیں لیکن
ترا جود و سخا‘ تیری دعا‘ تیری عطا کر دے
بقیع پاک میں ڈھونڈا ہے میں نے خواب میں مدفن
خدا اس خواب کو اک واقعہ سر تا پا کر دے
تمنا ہے کہ خاک پاک کا پیوند ہو جائوں
تمنا صوفی محتاج کی پوری خدا کر دے
---
ہم غریبوں کا بھی سلطان غریباں کو سلام
(زائر حرم حمید صدیقی لکھنوی)