میں نے جو صورت گزشتہ صفحات میں لکھی ہے یہ حج تمتع کی صورت ہے چونکہ آپ کے لیے میں نے اسی کو مناسب سمجھا (اور اکثر لوگوں کے لیے وہی آسان اور بہتر ہے) اس لیے تفصیل سے میں نے اسی کو لکھ دیا ہے اس میں اور باقی دونوں صورتوں (قران اور افراد) میں معمولی سافرق ہے۔
قران اور تمتع میں تو یہ فرق ہے کہ تمتع میں میقات پر صرف عمرہ کا احرام باندھا جاتا ہے اور مکہ معظمہ پہنچ کر عمرہ کر کے احرام کھول دیا جاتا ہے اور حج کے لیے وہیں سے دوسرا احرام باندھ لیا جاتا ہے۔
اور قران میں میقات پر عمرہ اور حج دونوں کا احرام ساتھ باندھا جاتا ہے‘ اور اسی ایک احرام سے دونوں کو ادا کرنے کی نیت ہوتی ہے‘ چنانچہ قارن مکہ معظمہ پہنچ کر عمرہ کرتاہے لیکن عمرہ کا طواف اور سعی کر لینے کے بعد وہ بال نہیں منڈواتا بلکہ اسی طرح احرام کی حالت میں رہتا ہے یہاں تک کہ آٹھویں ذی الحجہ کو مکہ معظمہ سے منیٰ جاتا ہے اور آگے اس کا سارا پروگرام بھی وہی ہوتا ہے جو تمتع کرنے والے حاجی کا ہوتا ہے۔
اور افراد کی صورت یہ ہوتی ہے کہ میقات پر صرف حج کا احرام باندھا جاتا ہے اور اس احرام سے بس حج ہی کیا جاتا ہے۔ حج سے پہلے عمرہ نہیں کیا جاتا‘ افراد کرنے والا حاجی بھی جو احرام میقات پر باندھتا ہے وہ حج سے پہلے نہیں کھلتا اور دسویں تاریخ کو جمرئہ عقبہ کی رمی کرنے تک احرام کی ساری پابندیاں عائد رہتی ہیں۱؎ ان تینوں صورتوں کے حج کے اعمال اور پروگرام میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ یہ پہلے لکھا جاچکا ہے کہ افراد کرنے والے پر قربانی واجب نہیں ہے۔ ہاں اگر کرے تو مستحب اور مستحسن ہے۔ اگر ضرورت پڑے تو اس سے زیادہ تفصیل مناسک کی کسی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔
---
۱؎ حج بدل والوں کو ہمیشہ افرادہی کرنا چاہیے اور اگر قران یا تمتع کرنا ہو تو بھیجنے والے سے صراحۃً اجازت لے لی جائے۔ مثلاً احکام حج مفتی محمد شفیعa
منیٰ سے مکہ معظمہ واپسی اور چند روز قیام
جیسا کہ اوپر لکھا جاچکا ہے ۱۲ ذی الحجہ کو زوال کے بعد رمی کر کے اگر آپ چاہیں تو مکہ مکرمہ واپس ہو سکتے ہیں‘ لیکن افضل یہ ہے کہ ۱۳ کو بھی رمی کریں‘ اور اس کے بعد مکہ مکر مہ واپس آئیں‘ لیجئے اللہ کا شکر ادا کیجئے کہ اس نے آپ کا حج بالکل پورا کر ادیا اب حج کے سلسلہ کا کوئی خاص کام آپ کے ذمہ باقی نہیں رہا ہے اور ہے تو بس اتنا کہ جب آپ مکہ معظمہ سے رخصت ہونے لگیں تو ایک رخصتی طواف کر کے جائیں‘ اس کے سوا اب آپ سے شریعت کا کوئی خاص مطالبہ نہیں ہے۔ اس لیے آپ چاہیں تو آج ہی مکہ معظمہ سے روانہ ہو سکتے ہیں۔ لیکن نہ آپ اتنی عجلت کریں گے اور نہ اتنی جلدی آپ کی روانگی کا کوئی انتظام ہو سکے گا۔ اس لیے لامحالہ آپ کو ابھی مکہ مکرمہ میں ٹھہرنا ہوگا۔
ٹھہرئیے اور پوری خوشدلی سے ایک ایک دن کو غنیمت اور اللہ کی نعمت سمجھ کر