یہ مع ترجمہ کے پہلے بھی لکھی جاچکی ہے۔
اور دوسری: اَللّٰھُمَّ اِنَّ مَغْفِرَتَکَ اَوْسَعُ مِنْ ذُنُوْبِیْ وَرَحْمَتَکَ اَرْجِیْ عِنْدِیْ مِنْ عَمَلِیْ
’’اے میرے اللہ! تیری مغفرت میں میرے گناہوں سے بہت زیادہ وسعت ہے! اور مجھے اپنے اعمال سے بہت زیادہ تیری رحمت سے آسرا ہے۔‘‘
غرض مزدلفہ کی اس رات میں بھی عرفات کے دن ہی کی طرح دعا واستغفار کا اہتمام کیجئے۔
مزدلفہ سے منیٰ کو روانگی
فجر کی نماز مزدلفہ میں اول وقت پڑھ لیجئے اور اس کے بعد سورج نکلنے کے قریب تک پھر اللہ کی تسبیح وتقدیس اور تکبیرو تہلیل اور حمد وثناء اور دعا واستغفار میں مشغول رہیے اور جب سورج نکلنے کا وقت بالکل قریب آجائے تو وہاں سے منیٰ کو روانہ ہو جائیے۔ منیٰ یہاں سے تین میل ہے صبح کے ٹھنڈے وقت میں یہ راستہ آسانی سے پیدل طے ہو سکتا ہے روانگی کے وقت یہ تصور کیجئے کہ اب میرا مولا مجھے منیٰ بلا رہا ہے اور اس کا حکم ہے کہ میں وہاں پہنچ کررمی اور قربانی کروں‘ بہرحال یہ تصور کر کے اور شوق ومحبت سے اور ہیبت وعظمت کی کیفیت اپنے اوپر طاری کر کے تلبیہ پڑھتے ہوئے اب یہاں سے منیٰ کو روانہ ہو جائیے۔ اور اچھا ہے کہ رمی کے لیے کنکریاں بھی یہاں سے ہی چن لیجئے۔
راستہ میں وادی محسر ایک نشیبی جگہ آئے گی‘ یہ وہ مقام ہے جہاں ابرہہ کا لشکر اللہ کے حکم سے ہلاک ہوا تھا‘ یہاں سر جھکائے اور خوف و دہشت کی حالت اپنے اوپر طاری کیے دوڑ کے نکل جائیے۔
منیٰ میں جمرات کی رمی
روایات میں ہے کہ حضرت ابراہیم u جب اپنے فرزند حضرت اسماعیل کو ذبح کرنے کے ارادے سے لے کر چلے اور منیٰ کی حدود میں پہنچے تو ایک جگہ شیطان سامنے آیا اور اس نے اس ارادہ سے آپؑ کو باز رکھنے کی کوشش کی حضرت ابراہیم u نے اس مردود کے سات کنکریاں ماریں جس سے وہ زمین میں دھنس گیا اور آپؑ آگے روانہ ہوگئے‘ کچھ دور چلے تھے کہ اللہ کا اور اللہ والوں کا دشمن پھر سامنے آیا اور اس نے ’ ناصح مشفق‘ بن کر آپؑ کو حضرت اسماعیل کی قربانی سے روکنا چاہا۔ آپ نے پھر اس کے سات کنکریاں ماریں جس سے وہ دفع ہو گیا۔ آپؑ آگے چل دیے کچھ دیر کے بعد تیسری دفعہ وہ پھر نمودار ہوا اور پھر اس نے ورغلایا‘ آپ نے پھر اس کو سات کنکریاں ماریں جس سے وہ پھر زمین میں دھنس گیا۔ اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیمu کی یہ عاشقانہ ادا ایسی پسند آئی کہ قیامت تک کے لئے اس کی نقل بھی حج کا جزوبنادی گئی ہے۔
جن تین جگہوں پر شیطان پر حضرت ابراہیم u نے سنگ باری کی تھی ان جگہوں پر بطور نشان کے تین ستون بنے ہوئے ہیں اور حجاج اب ان نشانوں پر کنکریاں مارتے ہیں۔ ان ہی نشانوں کو جمرات کہتے ہیں‘ منیٰ سے مکہ مکرمہ جاتے ہوئے سب سے آخر میں جو جمرہ آتا ہے وہ جمرۃ العقبہ کہلا تا ہے اس سے پہلے والا جمرہ‘ جمرۃ الوسطیٰ کہلاتا ہے اور جو اس سے پہلے مسجد خیف کے قریب واقع ہے اس کو جمرۃ