کرتے‘ اور دو قرآن روزانہ پڑھ لیتے (بحوالہ احیاء)
آخر شب میں اور گرمیوں میں ٹھیک دوپہر کو مجمع کم ہوتا ہے۔ بعض اہل ذوق ان اوقات کا انتظار کرتے ہیں بعض ہر نماز کے بعد کرتے ہیں۔ بعض مجمع ہی کو پسند کرتے ہیں کہ معلوم نہیں کس کی برکت سے ہمارا طواف اور ہماری دعائیں بھی قبول ہو جائیں۔ رحمت الٰہی کس کی طرف متوجہ ہو اور ہم کو بھی نہال کرجائے۔
((وللناس فی مایعشقون مذاھب))
لیکن کسی وقت آئیے۔ دن ہویا رات‘ پہلا پہر ہویا ٹھیک دوپہر‘ شمع پر پروانوں کا وہی ہجوم ہے۔ مطاف کسی وقت خالی نہیں‘ اگر اس کے انتظار میں رہیے گا کہ دو چار آدمی ہوں اور پورے سکون وطمانیت کے ساتھ طواف کریں تو یہ حسرت کبھی پوری نہ ہو گی جس کو اللہ تعالیٰ نے مَثَابَۃً لِّلنَّاسْ (لوگوں کے لوٹ لوٹ کر آنے کی جگہ) بنایا اور جس کو سب سے بڑی محبوبیت ومر کزیت عطا فرمائی اور دلکشی کوٹ کوٹ کر بھر دی وہ عشاق سے خالی کب رہ سکتا ہے۔ رات کو عشاء کے بعد سے صبح صادق تک ہر ہر گھڑی میں آکر دیکھا دربار بھرا ہواہی پایا۔ ادھر ملتزم کا حال یہ ہے کہ وہ دعا کرنے والوں اور مچل مچل کر مانگنے والوں اور لپٹ لپٹ کر فریاد کرنے والوں سے کسی وقت خالی نہیں‘ کوئی عربی میں‘ کوئی فارسی میں‘ کوئی ترکی میں‘ کوئی سوڈانی میں‘ کوئی جاوی میں کوئی اردو میں‘ کوئی بنگالی میں‘ کوئی نثر میں‘ کوئی نظم میں‘ کوئی زبانی کوئی بے زبانی میں عرض حال کر رہا ہے۔ دل کھول کھول کر مانگ رہا ہے پھوٹ پھوٹ کر رورہا ہے کوئی پردے میں منہ ڈالے بڑے درد سے پڑھ رہا ہے۔
بر در آمد بندئہ بگریختہ
آبروئے خود بعصیاں ریختہ
یارب البیت‘ یارب البیت کی صدا بلند ہے۔
حرام میں ایک نماز کا ثواب ایک لاکھ نمازوں کے برابر ہے اس لیے اس سے بڑھ کرکیا خسارہ ہو گا کہ کوئی فرض نماز حرم میں نہ ہو‘ حرم کے باہر اگر آدمی کہیں جائے بھی تو کہاں جائے بس ہم ہیں اور حرم ہے نمازیں بھی یہیں نوافل بھی یہیں طواف بھی یہیں‘ تلاوت واذکار بھی یہیں۔
بات کرتے کرتے ذی الحجہ کی ابتدائی تاریخیں ختم ہوگئیں‘ لیجئے آج ۷ ذی الحجہ ہوگئی‘ رات بیچ میں ہے کل منیٰ جانا ہے۔ سواریوں کے انتظامات ہو رہے ہیں‘ احرام کی تیاریاں ہیں‘ کوئی موٹر طے کر رہا ہے۔ کوئی کار اور ٹیکسی کی بات چیت کر رہا ہے۔ کوئی اونٹ کا انتظام سوچ رہا ہے‘ کوئی پیدل جانے ہی کی ٹھان رہا ہے‘ رات گزری صبح ہوئی۔ حج کی اصل مشغولیت شروع ہوگئی‘ کوئی دن چڑھے سواری آگئی۔ سوار ہوئے لبیک لبیک کی صدائوں کے ساتھ منیٰ کارخ کیا جو پاس سے گزرتا لبیک ہی سے سلام کرتا‘ تین ہی میل کا فاصلہ کیا‘ بات کرتے پہنچ گئے۔ یہ ڈیروں اور خیموں کا عظیم الشان شہر‘ جہاں تک نظر کام کرتی رنگ برنگے خیمے اور چھولد اریاں ہی نظر آتیں‘ سارا عالم اسلام یہاں سمٹا ہوا نظر آتا ہے۔ وہ بھی حدود کی تقسیم کے بغیر‘ یہاں ہندی ہیں وہاں جاوی‘ یہ مصری ہیں وہ شامی‘ ذراآدمی بھٹک جائے پھر قیام گاہ کا پتہ لگانا مشکل‘ اپنے معلم کے جھنڈے کے نیچے اپنے خیمے میں مقیم ہوئے۔ آج کا سارا دن اور پوری رات یہاں بسر کرنی ہے‘ کل۹ کو عرفات کی طرف کوچ ہے‘ یہاں