زائرو! پیش کرو جب شہ ذی شاں کو سلام
ہم غریبوں کا بھی سلطان غریباں کو سلام
عرض کرنا بکمال ادب و شوق و نیاز
قبلہ اہل وفا‘ کعبہ ایماں کو سلام
یاد رکھنا حرم پاک کے جانے والو
مجھ گنہگار کا اس رحمت یزداں کو سلام
بھول جانا نہ کہیں وقت تلاوت للہ
مہبط روح امیںؑ حامل قرآں کو سلام
خواب گاہ شہ کونین پہ ہر لحظہ درود
سحر و شام مرے حاصل ایماں کو سلام
گوشہ گوشہ پہ شبستان رسالت کے درود
روضہ و منبر و محراب درخشاں کو سلام
قبہ نور پہ ہوتے ہیں جو قرباں ہمہ شب
ان ستاروں کو سلام، اس مہ تاباں کو سلام
فرش پا ہوتی ہے جو صحن حرم میں ہر سو
اس شب ماہ اور اس صبح درخشاں کو سلام
جس سے ہوتی ہیں مری ہجر کی راتیں روشن
حرم قدس کی اس شمع شبستاں کو سلام
گنبد سبز کا ہر روز جو کرتی ہیں طواف
ان شعاعوں کو اس مہر درخشاں کو سلام
جس سے روشن ہوئے دل ہم سے سیہ کاروں کے
اس در پاک کی قندیل فروزاں کو سلام
روضہ خلد میں جو محو عبادت ہوں گے
ان کے حسن نظر و چہرئہ تاباں کو سلام
درِ اقدس پہ جو مصروفِ گہر باری ہو،
نِگۂ شوق کا اُس دیدئہ گریاں کو سلام
وہ جو احساس ندامت سے ہو طوفان بہ کنار
ڈبڈبائی ہوئی اس چشم پشیماں کو سلام
گم جو ہو جلوئہ بے رنگ کے نظاروں میں
دل مشتاق کا اس دیدئہ حیراں کو سلام
با صد اخلاص و بانداز غلامی کہنا
حرم پاک کے ہر خادم و درباں کو سلام
دل کو دل چشم توجہ سے بنایا جس نے
میرے اس راہبر منزل عرفاں کو سلام
جو پھرا کرتے ہیں مستوں کی طرح گلیوں میں
ان سگان بلد شاہ رسولاں کو سلام
جن کو حاصل ہے شرف آپ کی پا بوسی کا