از
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم
اللہ اللہ کر کے روانگی کی تاریخ آئی۔
ع ’’دن گنے جاتے تھے جس دن کے لیے‘‘
جس دن کی آرزولے کر اللہ کے لاکھوں نیک اور مقبول بندے دنیا سے چلے گئے‘ ہزاروں اولیاء اللہ عمر بھر اسی حسرت واشتیاق میں رہے‘ وہ ایک ظلوم و جہول بندہ کو نصیب ہو رہا ہے۔
ع بر ایں مژدہ گر جان فشانم رواست
بہت چاہا کہ سوائے چند مخصوص دوستوں کے کسی کو خبر نہ ہو’ ایسے موقع پر ریاو عجب (خود پسندی) سے حفاظت اور اخلاص کا مل بڑا اونچا مقام اور اللہ کے مخلص بندوں کاکام ہے۔ اگر سفر کی بسم اللہ ہی غلط ہوئی اور اخلاص میں فرق آیا تو بڑا خطرہ ہے۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
لیکن ایک سے دوسرے کو اور دوسرے سے تیسرے کو خبرہو ہی گئی‘ اے اللہ! دل کا نگہبان تو ہی ہے۔ اپنی ناکارگی‘ گناہوں اور شامت نفس کا پورا استحضار اور تیرے بے استحقاق احسان کا مراقبہ رہے۔ ایک لمحہ کے لیے بھی اہلیت ومقبولیت کا وسوسہ اور ریا کا ادنیٰ شائبہ بھی نہ آنے پائے۔
((اَللّٰھُمَّ اِنَّ قُلُوْبُنَا وَنَوَاصِیِنَا وَجَوَارِحَنَا بِیَدِکَ لَمْ تُمَلِّکْنَا مِنْھَا شَیْئًا فَاِذَا فَعَلْتَ ذَالِکَ بِنَا فَکُنْ اَنْتَ وَلِیُّنَا وَاھْدِنَا اِلٰی سَوَائِ السَّبِیْلِ))
’’اے اللہ! ہمارے دل‘ ہماری پیشانی کے بال‘ ہمارے اعضاء وجوارح‘ سب تیرے ہاتھ میں ہیں تو نے اس میں سے کوئی چیز بھی ہمارے اختیار میں نہیں دی۔ جب واقعہ یہ ہے تو پھر توہی ہمارا کار سازرہ‘ اور ہم کو سیدھے راستے پر لگا۔‘‘
تجربہ کاروں کا کہنا ہے کہ سفر میں سامان کم سے کم ہو اور بس ضروری چیزیں لیجئے زیادہ سامان کی وجہ سے بہت سی نعمتوں سے محروم ہونا پڑتا ہے آزادی نہیں رہتی اور بعض اوقات غلط کام کرنے پڑتے ہیں‘ جن کا ہمیشہ افسوس رہتا ہے۔ لیجئے دیکھتے دیکھتے چلنے کا وقت آگیا‘ مگر وہ وقت نہیں ہے تو ہر سفر کا آغاز دورکعت نفل اور دعاء سفر سے مسنون ہے‘ نہ کہ اتنا طویل مبارک اور نازک سفر جس میں ہر آن خطرہ پونجی کے ڈوب جانے اور قلب ونیت کے قزاقوں کی رہزنی کا ہے‘ ساری عمر کا خشوع اگر اس ایک نماز میں اور زندگی بھر کا تضرع اگر آج کی دعا میں آجائے تو بڑی بات نہیں‘ جسم وجان‘ قلب وایمان‘ بروبحر کے خطرے اس ایک سفر میں جمع ہیں۔ ہار جیت کا سفر ہے‘ ہار بھی ایسی کہ اس کے برابر کوئی ہار نہیں‘ اللہ کے