مسافر کہ کے بسم اللہ مجرھا و مرساہا
جہاز زندگی اپنا سپرد ناخدا کر دے
کفن پہنائے جب مجھ کو خدا میقات ہستی پر
فنا فی اللہ کر کے زندگی سر تا پا کر دے
صدا لبیک کی یکبارگی جب چار سو گونجے
مجھے دیوانگی اس وقت مصروف بکا کر دے
فغاں کے ساتھ نکلیں پے بہ پے لبیک کی چیخیں
تصور ان کے گھر کا میری حالت کیا سے کیا کر دے
برہنہ پا، برہنہ سر، کفن بر دوش جا پہنچوں
جہان شوق میں میرا جنون محشر برپا کر دے
وہی صحرا‘ وہی دشت وجبل پھر آنکھ سے دیکھوں
غبار انکی گلی کا میری آنکھوں کا سرمہ کر دے
وہ دیکھوں میں‘ بیاں سے جس کے عاجز ہو زباں میری
وہ اتنا دے کہ مجھ کو بے نیاز مدعا کر دے
حدود پاک میں اس کے حرم کے سر کے بل اتروں
وہ سجدوں کو مرے قائم مقام نقش پا کر دے
تقاضائے ادب یوں آبلہ پائی کی خو ڈالے
نیاز راحلہ کی قید سے مجھ کو رہا کر دے
نیاز عاشقی لے کر گلی میں ان کی یوں دوڑوں
کہ مجھ کو جذب معشوقانہ منزل آشنا کر دے
تڑپ کر جان دیدوں جب حرم پاک میں پہنچوں
مگر پھر جی اٹھوں جب دامن کعبہ ہوا کر دے
بہت روئوں لپٹ کر لیلیٰ کعبہ کے دامن سے
یہ بارش آنسوئوں کی نخل ہستی پھر ہر اکردے
اسے چوموں حبیب کبریا نے جس کو چوما ہے
کہ شاید لذت عشق نبیؐ سے آشنا کر دے
عذار کعبہ کا اک خال دلکش سنگ اسود ہے
نہیں چشم سیہ ہے حسن جس کو سرمہ ساکر دے
پیوں پھر سیر ہو کر آب زمزم چاہ زمزم پر
مرا جام طلب لبریز بہ آب بقا کر دے
شعائر پر خدا کے جائوں ذوق ہاجرہ لے کر
مری توفیق شرح آیہ ان الصفا کر دے
جھکائوں سر کو اسماعیل سا ہر سنگریزے پر
مجھے قسمت اگر آوارہ دشت منیٰ کر دے
پیادہ پاچلوں پھر خیف سے میں سوئے مزدلفہ
کہ مشعر پر خدا پھر ذکر کی نعمت عطا کر دے
بڑھوں رحمت کی جانب کہہ کے پھر ارنا منا سکنا