صرف دعا میں مشغول رہنا اور اس میں توجہ الی اللہ کا قائم رہنا مشکل ہے اس لئے اپنے ذوق کے مطابق ذکر وتسبیح‘ تکبیرو تہلیل اور تلاوت کا بھی شغل رکھیئے‘ اور تھوڑی تھوڑی دیر کے وقفہ سے تلبیہ بھی کہتے رہیے۔ اور جب دعا کرنی ہو تو اپنی بے بسی وحاجت مندی اور اللہ تعالیٰ کی بے انتہا قدرت اور شان کن فیکون کا استحضار کرکے اور زیادہ سے زیادہ الحاح اور انابت کی کیفیت اپنے اندر پیدا کر کے اور عرفات میں حاضر ہونے والوں کے لئے مغفرت اور دعائوں کی قبولیت کے جو الٰہی وعدے رسول اللہ e کے ذریعہ ہم تک پہنچے ہیں ان کو دل میں حاضر کر کے اور ان کی سچائی کا کامل یقین اپنے دل میں پیدا کر کے پہلے اللہ سے گناہوں کی معافی اور ہر طرح کے اور ہر منزل کے مواخذہ اور عذاب سے نجات مانگئے اور ہمت پڑ سکے تو مغفرت بے حساب کا سوال کیجئے اپنی سیاہ کاریوں اور تباہ کاریوں کو یاد کر کے روئیے۔ خوب پھوٹ پھوٹ کر روئیے۔ اور آج رونے اور مانگنے میں کوئی کمی نہ کیجئے۔ دنیا اور آخرت کی اپنی سب ضرورتیں مانگئے اللہ ورسول (e) کے بعد اس دنیا میں آپ کے ماں باپ آپ کے سب سے بڑے محسن ہیں۔ ان کے لئے بھی خوب دعائیں کیجئے ان کے علاوہ اپنے اور محسنوں‘ محبوں‘ مخلصوں اور اعزہ ومتعلقین کے لئے مانگئے سب ایمان والوں اور ایمان والیوں کے لیے مانگئے۔ اور اس سب کے علاوہ دین کی پھر سے سر سبزی اور سربلندی اور اس کے ساتھ اپنی اور اپنی نسلوں کی اور سب مسلمانوں کی گہری اور دائمی وابستگی خوب الحاح کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے مانگئے۔ اس موقع پر رسول اللہ e کی عمر بھر کی ان محنتوں کو نہ بھولیے جو دین کے پھیلانے اور بندوں کا رشتہ اللہ سے جوڑنے کی راہ میں آپ نے فرمائیں ہمارا ایمان‘ ہماری نماز‘ ہمارا حج اور ہمارا ہر دینی عمل اس محنت اور کاوش ہی کا پھل ہے اس لئے آپؐ کے لئے اور آپؐ کے آل اور اصحابؓ اور ہرزمانہ کے دین کے خادموں کے لیے بھی اللہ تعالیٰ سے رحمت اور رفع درجات کی دعا کیجئے۔ بہتر ہے کہ یہی آپ کی دعا کا خاتمہ ہو۔
عرفات میں اپنا ایک مشاہدہ
گزشتہ سال ۱۳۶۸ھ میں جب یہ سیاہ کار وہاں حاضر ہوا تو عرفات کے اسی میدان میں ایک شخص کو دیکھا کہ ظہر کے بعد سے وہ ایک جھاڑی کی آڑلے کر اور اپنے رفیقوں سے بھی الگ ہو کر ریت کے ایک ٹیلے پر پڑگیا‘ ماثورہ دعائوں کی کوئی کتاب بھی اس کے ساتھ تھی (ملا علی قاری aکی ’’ الحزب الاعظم‘‘ ہو گی یا مولانا تھانوی aکی ’’ مناجات مقبول‘‘) کبھی بلبلا بلبلا کر اس کتاب سے دعائیں پڑھتا تھا‘ کبھی کتاب ہاتھ سے رکھ کر اپنی زبان میں اپنی دنیوی اور اخروی حاجتیں اپنے رب کریم سے مانگنے لگتا تھا کبھی سجدہ میں گر کے آہ وزاری کرتا تھا۔ غالباً کئی گھنٹے اس کا یہی حال اور یہی شغل رہا۔ اس کا تڑپنا‘ بلبلانا اور بے تحاشا آنسوئوں کے بہنے سے اس کی ڈاڑھی اور احرام کی چادر تک کا تربہ تر ہو جانا اور الحاح وابتہال کی ایک عجیب شان کے ساتھ اپنے کریم رب سے اس کا مانگنا دیکھ کر یقین ساہوتا تھا کہ جس رب کی صفت رحمان اور رحیم ہے۔ اور جو اپنی ذات سے جواد ‘ وہاب‘ اور کریم ہے وہ اپنے در کے اس منگتا کو محروم واپس نہ کرے گا۔