۱؎ اگر حج افرادیا قران کرنے والا حاجی طواف قدوم کے بعد یاحج تمتع کرنے والا حاجی کسی نفلی طواف کے بعد اس سے پہلے سعی کر چکا ہو تو طواف زیارت کے بعد وہ سعی نہیں کرے گا اور طواف میں اضطباع اور رمل بھی نہیں کرے گا۔
پھر منیٰ کو روانگی
اس طواف وسعی سے فارغ ہو کر آپ اب سیدھے منیٰ چلے جائیے کل اور پرسوں یعنی گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو وہاں تینوں جمروں کی آپ کو رمی کرنی ہوگی بلکہ افضل یہ ہے کہ تیر ہویں کو بھی آپ وہاں رہیں اور اس روز بھی بعد زوال تینوں جمروں کی رمی کرکے مکہ معظمہ واپس ہوں۔
۱۱‘ ۱۲‘ ۱۳ ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام اور رمی جمار
کم از کم دو دن (گیارہ اور بارہ ذی الحجہ کو ) منیٰ میں ٹھہر کے تینوں جمروں کی رمی کرنا تو آپ کے لیے ضروری ہے‘ اور افضل یہ ہے کہ تیرہ کو بھی ٹھہریں اور اس روز بھی رمی کرکے مکہ معظمہ واپس آئیں‘ ان تینوں دن تینوں جمروں کی رمی زوال کے بعد اور غروب آفتاب سے پہلے سنت ہے۔ تینوں دن رمی کی ترتیب یہ رہے گی کہ منیٰ سے مکہ معظمہ جاتے ہوئے جو پہلا جمرہ پڑتا ہے (جس کو جمرۃ الاولیٰ کہتے ہیں) پہلے اس کی رمی کی جائے گی‘ اس کے بعد اس سے بعد والے جمرہ (جمرۃ الو سطیٰ) کی‘ اور اس کے بعد آخری جمرہ (جمرۃ العقبہ) کی۔
رمی کا طریقہ بالکل وہی ہوگا جو پہلے دسویں تاریخ کی رمی کے سلسلہ میں لکھا جا چکا ہے۔ البتہ ایک ذراسافرق یہ ہوگا کہ دسویں تاریخ کو صرف ’’جمرۃ العقبہ‘‘ کو جورمی آپ کریں گے اس کے بعد دعا نہیں کریں گے‘ اور ان تینوں دنوں میں پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد دعا کرنی چاہیے لیکن آخری جمرہ کی رمی کے بعد ان تین دنوں میں بھی دعا نہیں کی جائے گی۔
رمی جمار کے بعد دعا کی اہمیت
اپنی ناواقفی اور معلموں کے نہ بتلانے کی وجہ سے جن چند چیزوں میں اکثر وبیشتر حجاج کوتا ہی کرتے ہیں ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ رمی کے بعد دعا بالکل نہیں کرتے حالانکہ پہلے اور دوسرے جمرہ کی رمی کے بعد چند قدم آگے بڑھ کے قبلہ روکھڑے ہو کر اطمینان سے اور دیر تک دعا کرنی چاہیے‘ یہ موقع بھی ان مواقع میں سے ہے جہاں دعا کی قبولیت کی خاص امید ہوتی ہے۔
منیٰ کے ان دنوں میں آپ کے مشاغل
ان دنوں میں متعین کام تو صرف دوہی ہیں‘ ایک منیٰ میں رہنا‘ خاص کر رات وہیں گزارنا۔ اور دوسرے مذکورہ بالا تفصیل کے مطابق رمی کرنا۔
باقی اوقات بھی آپ کے غفلت میں اور فضولیات میں ہر گز صرف نہ ہونے چاہئیں۔ یوں تو مومن کی ساری زندگی کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور قیامت میں ہم کو اپنی عمر کے ایک ایک منٹ کا حساب دینا ہے‘ لیکن خاص کریہ سفر اور اس کے بھی یہ خاص