وفات پر عرش الٰہی جنبش میں آگیا تھا‘ سیدنا عبدالرحمن بن عوف اور دوسرے اکابر صحابہ مدفون ہیں۔ وہاں سے آگے چلئے تو شمالی مغربی جانب دیوار سے متصل وہ ستر شہداء صحابہ واہل مدینہ جن کو واقعہ حرہ میں یزید کے دور حکومت میں ۶۳ھ میں شہید کیا گیا تھامد فون ہیں اس کے بعد بقیع کے بالکل کو نہ پر مشرقی شمالی جانب امام مظلوم شہید الدار سیدنا عثمانؓ بن عفان آرام فرما رہے ہیں۔ یہاں پر کچھ دیر ٹھہرئیے اور محبت وعظمت کے جو آنسو سیدنا ابوبکر وسیدنا عمر w کے مرقد پر بہنے سے بچ رہے تھے ان کو ان کے تیسرے ساتھی کی خاک پر بہائیے۔
آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
اس کے آگے سیدنا ابو سعید خدری‘ سیدنا علی t کی والدہ فاطمہ بنت الاسد کے مقابر ہیں سب کو سلام عرض کیجئے اور فاتحہ پڑھئے پھر ایک لمحہ ٹھہر کر پورے بقیع پر عبرت وتفکر کی نظر ڈالیے‘ اللہ اکبر کتنے سچے تھے یہ اللہ کے بندے‘ جو کچھ کہتے تھے وہ کر دکھایا کرتے تھے: {رْجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ} مکہ میں جس کے ہاتھ میں ہاتھ دیا تھا‘ مدینہ میں اسی کے قدموں میں پڑے ہیں۔
جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم
سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے
گنبد خضرا پر ایک نظر ڈالیے پھر مدینہ کے اس شہر خموشاں کو دیکھئے صدق واخلاص‘ استقامت ووفا کی اس سے زیادہ روشن مثال کیا ملے گی۔ آئیے بقیع میں اسلام کی خدمت کا عہد کریں اور اللہ سے دعا کریں کہ وہ ہمیں اسلام ہی کے راستہ پر زندہ رکھے اور اسی کے ساتھ وفاداری میں موت آئے جنت البقیع کا یہی پیغام اور یہاں کا یہی سبق ہے۔
مدینہ طیبہ کی زندگی کا ایک شعبہ اور ہے اور وہ رسول اللہ e کے ہمسایوں کی خدمت ہے‘ اصل خدمت تویہ تھی کہ ان کی تعلیم کا انتظام کیا جاتا‘ ان کو فارغ البال بنانے کی تدبیریں کی جاتیں لیکن اس تھوڑے سے وقت میں یہ بھی بڑی سعادت ہے کہ جن لوگوں کو زمانہ کے انقلاب اور زندگی کی گرانی نے مفلوک الحال بنادیا ہے اپنا شرف سمجھ کر ان کی خدمت کی جائے لیکن اس طرح کہ اصل محسن ان کو سمجھا جائے کہ وہ ہم کو اس سعادت کا موقع دیتے ہیں۔ یہ انصار ومہاجرین کی اولاد ہیں‘ آستانہ نبویؐ پر پڑے ہوئے ہیں کوشش کی جائے کہ واقفین حال اور قدیم باشندوں کے ذریعہ ان لوگوں تک پہنچا جائے جن کی صفت قرآن مجید میں بیان کی گئی:
{اَ لَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبْیْلْ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضْ یَحْسَبُھُمُ الْجَاھْلُ اَغْنِیَائَ مِنَ التَّعَفُّفِ تَعْرْفُھُمْ بْسیْمَاھُمْ لاَ یَسْئَلُوْنَ النَّاسَ اِلْحَافًا}
قبامیں بھی حاضری دیجئے یہ وہ بقعہ نور ہے جو حضور اکرم e کے قدوم سے مدینہ سے بھی پہلے مشرف ہوا۔ وہاں اس مسجد کی بنیاد رکھی گئی جس کو لَمَسْجْدٌ اُسِّسَ عَلَی التَّقْوٰی مِنْ اَوَّلْ یَوْمٍ کا خطاب ملا‘ محبت وعظمت کے ساتھ حاضر ہوئیے‘ اس زمین پر نماز پڑھئے‘ پیشانی اس خاک پر رکھئے جو رسول اللہ e اور رْجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَھَّرُوْا کے قدموں سے پامال ہوئی اس فضامیں سانس لیجئے جس میں وہ انفاس قدسی اب بھی