ہیں۔ حجاج کو عموماً اپنے معلم کی شکایت کرتے ہی دیکھا گیا ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ معلمین بھی اپنے فرائض ادا کرنے میں کوتا ہی کرتے ہیں اور حجاج کی راہنمائی اور راحت رسانی کا جو انتظام انہیں کرنا چاہیے اور جتنا وہ کر سکتے ہیں اکثر معلم اتنا بھی نہیں کرتے‘ لیکن اس عاجز کے نزدیک ان شکاتیوں کی بڑی بنیاد خود حجاج کی یہ غلطی ہوتی ہے کہ وہ معلم سے ایسی تو قعات وابستہ کر لیتے ہیں جو نہیں کرنی چاہئیں۔ بہت سی انتظامی چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن میں بے چارے معلم بھی بے بس اور دوسروں کے دست نگر ہوتے ہیں‘ پھر بھی اس میں شبہ نہیں کہ بعض معلم تجربہ میں دوسروں سے اچھے ثابت ہوتے ہیں لہٰذا سمجھ دار اور تجربہ کار
مہمل ہے۔ بہتر یہ ہے کہ اس کام کے لیے عورتیں اپنے ہاتھ میں پنکھایا اس قسم کی کوئی اور چیز رکھیں جس سے چہرہ نامحرموں سے چھپا سکیں۔
حجاج اگر کسی معلم کو اچھا بتلائیں اور مخلصانہ طور پر اس کے متعلق مشورہ دیں‘ تو آپ اس کو اپنا معلم بنالیں۔ بعض لوگ معلوں کی باقاعدہ ایجنٹی اور دلالی بھی کرتے ہیں‘ ایسے لوگوں کی باتوں کا اعتبار نہیں کرنا چاہیے۔
جدہ
جدہ کے ساحل پر اتر کر آپ کو خوشی ہوگی اور ضرور خوشی ہونی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے حجاز کی اس زمین پر قدم رکھنا آپ کو نصیب فرمایا جس کی محبت ہر مومن کے دل میں تمام ملکوں سے زیادہ ہے۔ جدہ گویا حجاز کا سب سے بڑا بحری اسٹیشن ہے‘ اور مکہ معظمہ کا تو گویا دروازہ ہے۔ آپ کا پاسپورٹ آپ سے یہاں لے لیا جائے گا اور پھر آپ کو واپس نہیں دیا جائے گا‘ بلکہ اندراج وغیرہ کی کارروائی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کے معلم کے پاس پہنچ جائے گا۔ جدہ میں آپ کے معلم کا وکیل مکہ معظمہ جانے کے لیے آپ کے واسطے سواری کا انتظام کرے گا۔ اس میں کبھی کبھی ایک آدھ دن کی دیر بھی لگ جاتی ہے۔
جدہ سے مکہ معظمہ
آپ کی طبیعت چونکہ مکہ معظمہ پہنچے کے لیے بیتاب ہوگی اس لئے جدہ کا یہ تھوڑا سا قیام بھی آپ پر بہت گراں گزرے گا بہر حال دیر سویر انتظام ہو ہی جائے گا اور آپ موٹر کار یابس سے مکہ معظمہ روانہ ہو جائیں گے۔ جدہ سے مکہ معظمہ کا راستہ صرف دو ڈھائی گھنٹہ کا ہے۔ سٹرک بہت اچھی ہے ڈرائیور بھی عموماً گاڑی تیز چلانے کے عادی ہیں۔
حد حرم
مکہ معظمہ جب قریباً دس میل رہ جاتا ہے تو شمیسیہ نام کا وہ مقام آتا ہے جہاں سے حرم کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں ۶ھ میں حضور e کو عمرہ کرنے سے کفار مکہ نے روک دیا تھا اور پھر صلح کر کے بغیر عمرہ کیے آپ مدینہ واپس ہوگئے تھے۔ یہیں حدیبیہ کا وہ میدان ہے جس کے ایک درخت کے نیچے آنحضرت e نے صحابہ کرام سے موت پر بیعت لی تھی جو بیعت رضوان کے نام سے مشہور ہے اور جس کا قرآن مجید میں بھی ذکر ہے۔ یہاں سے حرم کی حد شروع ہو جاتی ہے۔ یہاں سڑک کے