مدینہ طیبہ میں آپ کا قیام اور اس عرصہ کے مشاغل
خدا نے چاہا تو آپ کو مدینہ طیبہ میںقیام کا کافی موقع ملے گا ان دنوں کے ایک ایک لمحہ کو غنیمت سمجھئے جہاں تک ہو سکے زیادہ وقت مسجد نبویؐ میں گزاریئے۔ لاکھوں کروڑوں میل کی اللہ کی زمین میں یہی وہ خوش نصیب قطعہ ہے جہاں رسول اللہ e نے اللہ کے حضور میں سب سے زیادہ سجدے کیے‘ نمازیں پڑھیں‘ خطبے دیے‘ دعائیں کیں‘ اعتکاف کیے‘ اگرچہ مسجد نبویؐ عہد نبوت کی وہ پرانی مسجد نہیں ہے۔ لیکن اس میں کیا شک کہ زمین وہی ہے اور فضاوہی ہے‘ اور انوارو برکات وہی ہیں اور رسول اللہ e اس کے ایک حصہ میں آج بھی آرام فرما ہیں۔ یقینا
اگر فردوس بر روئے زمیں است
ہمیں است و ہمیں است و ہمیں است
بہرحال اپنا زیادہ وقت مسجد شریف ہی میں گزارئیے نفلی نمازیں پڑھیے‘ قرآن مجید کی تلاوت کیجئے اور سب سے زیادہ شغل درود شریف کا رکھئے۔ اور جب موقع مناسب ملے سلام عرض کرنے کے لیے مواجہہ شریف میں حاضر ہو جائیے۔
مواجہہ شریف میں اطمینانی حاضری کے اوقات
اس عاجز کے تجربہ میں چار وقت ایسے ہیں جبکہ مواجہہ شریف میں اطمینان سے حاضری اور عرض ومعروض کا موقع اکثر مل جاتا ہے‘ ایک تہجد کے وقت جبکہ مسجد شریف کے دروازے کھلتے ہیں۔ اس وقت داخل ہونے والے اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ وہ ’’روضۃ الجنۃ‘‘ میں جگہ پر قبضہ کرنے کی فکر میں یا’’ محراب النبیؐ‘‘ پر نفل پڑھنے کی کوشش میں اس طرف سبقت کرتے ہیں‘ آپ اگر اس وقت ’’باب جبرئیل ‘‘ سے داخل ہو کے اور تحیۃ المسجد مختصر پڑھ کے سیدھے مواجہہ شریف پر پہنچیں تو وہاں کوئی اژد حام اور مجمع انشاء اللہ اس وقت نہ پائیں گے‘ دوسرے ہندوستانی گھڑیوں کے حساب سے دن کو ۱۰ بجے اور ۱۱ بجے کے درمیان‘ تیسرے غروب آفتاب سے قریباً پون گھنٹہ آدھا گھنٹہ پہلے‘ چوتھے رات کو جب مسجد شریف کے دروازے بند کیے جاتے ہیں۔ اگر آپ اس امید میں بالکل آخری وقت تک وہاں رہیں تو انشاء اللہ کبھی کبھی چند منٹ کے لیے ایسا موقع بھی آپ کو نصیب ہو جائے گا جب کہ آپ کے سوا وہاں کوئی ا ور نہ ہو گا۔ چونکہ اصحاب ذوق ومحبت کو کسی ایسے وقت کی بڑی تمنا ہوتی ہے جبکہ۔
ع ’’ ہم ہی ہم ہوں تری محفل میں کوئی اور نہ ہو‘‘
اس لیے اپنا یہ تجربہ بے تکلف آپ کے لیے عرض کر دیا ہے۔ خدا کرے کام آئے‘ تو کیا میں آپ سے امید رکھوں کہ آپ ایسے کسی وقت میں بھی اس سیاہ کار کودیا رکھ سکیں گے؟
چو با حبیب نشینی و بادہ پیمائی
بیاد آر حریفان بادہ پیما را
ایک تجربہ اور مشورہ
انکسار کے طور پر نہیں بلکہ دیانت داری اور صفائی سے حقیقت حال عرض کرتا ہوں