بسے ہوئے ہیں۔
بر زمینے کہ نشان کف پائے تو بود
سالہا سجدئہ ارباب نظر خواہد بود
آج جبل احد اور اس کے مشہد میں (جس کو یہاں عرف عام میں ’’ سیدنا حمزہ t‘‘ کہتے ہیں) حاضری کی باری ہے‘ دوتین میل کی مسافت کیا‘ بات کرتے کرتے پہنچ گئے‘ یہ وہ زمین ہے جو اسلام کے سب سے قیمتی خون سے سیراب ہوئی‘ سب سے سچے‘ سب سے اچھے‘ سب سے اونچے عشق ومحبت اور وفا کے واقعات جو دنیا کی پوری تاریخ میں نہیں ملتے اسی سر زمین پر پیش آئے‘ سید الشہداء حمزہؓ کے رسول اللہ eکی محبت اور اسلام کی وفاداری میں یہیں اعضاء کاٹے گئے اور جگر کھایا گیا‘ عمارہ بن زیاد t نے قدموں پر آنکھیں مل مل کر یہیں جان دی۔ انس بن نضر کو جنت کی خوشبو اسی پہاڑ کے درے سے آئی‘ اور اسی سے اوپر زخم کھا کر یہیں سے رخصت ہوئے‘ دندان مبارک یہیں شہید ہوئے۔ سر پر زخم یہیں آئے۔ عشاق نے اپنے ہاتھوں اور پیٹھ کو محبوبؐ کے لیے سپر یہیں بنایا‘ مکہ کاناز پروردہ مصعب بن عمیرt یہیں شہید اور ایک کمبل میں دفن ہوئے یہاں اسلام کے شیر سوتے ہیں‘ یہ پوری زمین شمع نبوت کے پروانوں کی خاک ہے‘ رسول اللہ e کے عشاق اور اسلام کے جاں نثاروں کی بستی ہے۔
یہ بلبلوں کا صبا مشہد مقدس ہے
قدم سنبھال کے رکھیو یہ تیرا باغ نہیں
یہاں کی فضا اور یہاں کے پہاڑ سے اب بھی موتوا علی ما مات علیہ رسول اللہ e (اسی پر جان دے دو جس پر رسول اللہ e دنیا سے گئے۱؎ )
کی صدائے بازگشت آتی ہے‘ آئیے اسلام پر جینے اور جان دے دینے کا عہد پھر تازہ کریں۔ مدینہ طیبہ کے ذرہ ذرہ کو محبت اور عقیدت کی نگاہ سے دیکھئے تنقید کی نگاہ اور اعتراض کی زبان کے لیے دنیا پڑی ہوئی ہے‘ زندگی کے چند دن کانٹوں سے الگ پھولوں میں گزر جائیں تو کیا حرج ہے پھر بھی اگر آپ کی نگاہ کہیں رکتی اور اٹکتی ہے تو غور سے کام لیجئے وہ ہماری کوتاہی کے سوا اور کیا ہے‘ ہم نے دین اور دنیا کی خیرات یہیں سے پائی‘ آدمیت یہیں سے سیکھی‘ یہاں کی دستگیری نہ ہوتی تو ہم میں سے کتنے معاذاللہ بت خانہ‘ آتش کدہ اور کلیسا میں ہوتے لیکن ہم نے اس کا کیا حق ادا کیا؟ یہاں کے بچوں کی تعلیم وتربیت‘ یہاں کے لوگوں میں دین کی روح اور مقصد کا احساس پیدا کرنے کی کیا کوشش کی؟ فاصلہ کا عذر صحیح نہیں‘ ان کے بزرگوں نے سمندر اور صحرا عبور کر کے اور پہاڑوں کو طے کر کے دین کا پیغام ہم تک پہنچایا‘ ہم نے بھی اپنے فرض کا احساس کبھی کیا؟ کیا ہم سمجھتے ہیں کہ دین کے احسان کا بدلہ ہم چند سکوں سے ادا کر دیں گے جو ہمارے حجاج اپنی کم نگاہی سے احسان سمجھ کر مدینہ کی گلیوں میں بانٹتے پھرتے ہیں۔ ہم صدیوں غافل رہے اور اب بھی ہمارے اہل استطاعت غافل ہیں‘ اس عرصہ میں جہالت بے ترتیبی اور یورپ کی تہذیب وتمدن اور اس کی جاہلیت جس کا جال
۱؎ مقولہ حضرت انس بن نضر کا ہے۔ انہوں نے صحابہ y کو میدان احد میں بیٹھا ہوا دیکھا‘ پوچھا کیوں بیٹھے ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ e شہید ہوگئے۔ اب لڑکر کیا کریں گے؟ کہا تو پھر اسی پر تم بھی جان دے دو جس پر رسول اللہ e نے جان دی۔