ضروریات واحکام کی طرف ان کو متوجہ کیجئے۔ مگر خود ان کے حقوق اور ان کے احترام کا لحاظ رکھتے ہوئے۔ آپ اگرچہ حج میں ان کے شریک ہیں مگر اس سے ان کے حج کا احترام آپ کے ذمہ سے ساقط نہیں ہوتا‘ کسی کلمہ سے ان کی تنقیص یا ان کی دل آزاری نہ ہو۔
جہاز تیار ہے۔ بسم اللہ کر کے سوار ہوئیے‘ واپسی ضرور ہے سفر بے شک وطن کی طرف ہے لیکن یہ یاد رہے کہ واپسی اللہ کے گھر سے ہے۔ اور آپ حج کی ذمہ داریوں کے ساتھ واپس ہو رہے ہیں‘ نمازوں کا اہتمام‘ ذکر میں مشغولیت‘ رفیقوں کاخیال‘ ساتھیوں کے لیے ایثار کا جذبہ‘ اپنی کوتا ہیوں پر ندامت واستغفار‘ پہلے سے زیادہ ہونا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت کی دینی خدمت ورفاقت کا موقع دوبارہ عطا فرمایا ہے پھر اس موقع سے فائدہ اٹھائیے اور اپنے حج کو قیمتی بنائیے۔
اچھا‘ اب رخصت‘ یہ نوشتہ کیا عجب ہے کہ ہم سے زیادہ خوش قسمت ہو کہ سفر حج میں آپ کے ساتھ ہو‘ اور حرمین میںاس کو آپ کی رفاقت کی سعادت حاصل ہو اور خدا کی قدرت ورحمت سے بعید نہیں کہ آپ کو اس سے کچھ کام کی بات ہاتھ آ جائے۔ اگر یہ نہ ہو تو بھی ایک ادنیٰ اور نااہل رفیق کا بھی حق ہوتا ہے‘ حجاج کو اپنے اس سامان سے بھی انس ہو جاتا ہے جو اس سفر سعادت میں ساتھ ہو‘ یہ بھی نہیں تو اخوت اسلامی کا حق ضرور ہے‘ ان حقوق کی بنا پر اور بغیر کسی حق کے لوجہ اللہ یہ درخواست ہے کہ راقم سطور‘ اس کے والدین‘ اعزہ واحباب‘ محسنین (اور اس مجموعہ کے مرتب ومعاونین) کے لیے مواقع قبولیت پر دعا فرمائی جائے۔
عرض نقشیت کز ما یاد ماند
کہ ہستی رانمی بینم بقائے
مگر صاحبدلے روزے ز رحمت
کند بر حال ایں مسکیں دعائے
وداع کعبہ
حضرت عروج قادریa
رخصت اے رکن یمانی‘ رخصت اے سنگ سیاہ
یاد رکھنا میرے آنسو یاد رکھنا مری آہ
اے حطیم پاک رخصت تجھ سے بھی ہوتا ہوں میں
لب پہ آہ سرد ہے‘ دھنتا ہوں سر روتا ہوں میں
رخصت اے میزاب رحمت‘ الوداع اے بام و در
رخصت اے دیوار کعبہ‘ الوداع اے پاک گھر
الوداع اے رکن شامی الوداع اے مستجار