منور کر کے قندیل حرم سے اپنے سینے کو
چلا جاتا ہے ہنستا کھیلتا حاجی مدینے کو
ملائک راہ میں پیروں کے نیچے پر بچھاتے ہیں
زہے عشاق جو محبوب کی گلیوں میں جاتے ہیں
یہ وہ دربار ہے روح الامیں دربان ہیں جس کے
سمجھ میں کاش آجاتے یہ رتبے ان کی مجلس کے
ہزاروں بار تجھ پر اے مدینہ میں فدا ہوتا
جو بس چلتا تو مر کر بھی نہ میں تجھ سے جدا ہوتا
یہیں جان دادگان عشق کی بزم حسیناں ہے
احد کا دامن زریں مگس ران شہیداں ہے
اگر کان شہادت کی طرف ہم کان دیتے ہیں
تویہ معلوم ہوتا ہے صحابہ سانس لیتے ہیں
نبی کے نطق کی حامل مدینہ کی ہوائیں ہیں
یہاں گونجتی ہوئی اب تک صحابہ کی صدائیں ہیں
فضا خاموش ہو جاتی ہے جب تاروں کی چھائوں میں
تو ہنگام تہجد کی سکوت افزا فضائوں میں
اسی کا نطق دل میں نور سینہ بن کے آتا ہے
صحابہ کا تکلم اک سکینہ بن کے آتا ہے
یہاں کا ذرہ ذرہ کھینچتا ہے دل کے دامن کو
کہ اوطائر کہاں؟ اب چھوڑ کر اپنے نشیمن کو
کہیں ایسا نہ ہو مر کر کہیں برباد ہو جائیں
چلو طیبہ چلیں صوفی وہیں آباد ہو جائیں
تمنا
تمنا ہے کوئی اللہ والا پھر دعا کر دے
کہ مجھ کو رب کعبہ دولت حج پھر عطا کر دے
وہی تیاریاں ہوں پھر علائق سے جدا ہو کر
یہ بندہ پھر خدا کا ہو کے ترک ماسوا کر دے
گلے سے اپنے بچوں کو لگائوں اور جدا کر دوں
محبت اپنی غالب ہر محبت پر خدا کر دے
چلوں گھر چھوڑ کر جس دم تو رب البیت کا ہاتف
نوید باریابی دل کے پردوں کو اٹھا کر دے
وطن کے باغ سے جس وقت نکلوں راہ غربت میں
مدینہ یاد آکر باب جنت مجھ پر وا کر دے
مجھے رخصت کریں رو رو کے جس دم آنسوئوں والے
جنون شوق بحر اشک میں طوفان بپا کر دے