میں ششدر تھا اڑاتے تھے یہ سب عرفان کی تانیں
دل ہر ذرہ سے تھی چھوٹ انوار الٰہی کی
مگر کچھ فکر میں نے کی تھی دل کی سیاہی کی
خبر کیا تھی کہ کیا ہیں بوقبیس وطور کے جلوے
یہ کیا معلوم تھا ہوتے ہیں کیسے نور کے جلوے
یہ کیا معلوم تھا ان کی کرم فرمائیاں کیا ہیں
حرا کی خلوتیں یا ثور کی یکجائیاں کیا ہیں
مری چشم محبت خون حسرت اب بھی روتی ہے
خبر اے کاش یہ ہوتی کہ حج کیا چیز ہوتی ہے
وہ منزل قرب باری کی وہ رفعت کوہ رحمت کی
خبر کیا تھی کہ یہ سیڑھی ہے معراج محبت کی
گیا‘ حج کر کے لوٹ آیا تو اب حسرت ہے یہ طاری
کہ پہلے سے نہ کی افسوس حج کرنے کی تیاری
حرم سطح زمین پر مرکز عشق و محبت ہے
جسے کہتے تھے صحرائے عرب بحر حقیقت ہے
جسے کہتے ہیں حاجی غیرت صدقیس ہونا ہے
پکڑ کر دامن لیلائے کعبہ خوب رونا ہے
نہ جانے سحر کیا کرتی ہے یہ کالی ردا والی
کہ لاکھوں قیس آکر چومتے ہیں عتبہ رعالی
نہ سیریں ہیں نہ تفریحیں‘ تجارت ہے نہ میلے ہیں
مگر اس دشت میں یہ جذب ومستی ہے یہ ریلے ہیں
اگر فولاد کے کانٹے بچھائے جائیں صحرا میں
بجائے موج زنجیریں اگر تن جائیں دریا میں
تو ابراہیم نے جن خوش نصیبوں کو پکارا تھا
پکارا کیا‘ جنون عشق کا اک نقش ابھارا تھا
وہ مجنون محبت وہ سراپا عشق دیوانے
چلے آئیں گے کانٹے توڑتے زنجیر کھڑکاتے
یہ دیوانے اگر پہلے سے کچھ ہوشیار ہو جاتے
حرم میں بن کر محرم صاحب اسرار ہو جاتے
جسے کہتے ہیں بطحا منزل عشق الٰہی ہے
یہاں شاہی فقیری ہے فقیری رشک شاہی ہے
کفن پہنے پریشاں حال ژولیدہ مو راہی
چلا آتا ہے آنکھیں پونچھتا سرمست جاں کاہی
یہ جاں کاہی حقیقت میں حیات جاودانی ہے
وگرنہ گوشت ہڈی کھال مٹی خون پانی ہے
فضائوں میں یہیں کی عشق کا پودا پھنکتا ہے
ہوا یہ کھا کے گلزار دل مومن لہکتا ہے