۶؎ یہ آپ کی کمزور و ناتواں امت ہے۔ ۷؎ دشمنوں کے قابو میں ہے۔
۸؎ آپ کا تیر نشانہ سے ہٹ نہیں سکتا۔ ۹؎ آپ کے نشانہ کو غلط نہیں کہا جاسکتا۔
۱۰؎ اللہ ہی سب سے بڑا ہے۔ ۱۱؎ اور حق پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔
حج کے بعد … حسرت اور تمنا
یہ حسرت رہ گئی پہلے سے حج کرنا نہ سیکھا تھا
کفن بردوش جا پہنچا مگر مرنا نہ سیکھا تھا
نہ رہبر تھا‘ نہ رہرو تھا نہ منزل آشنا تھا میں
محبت کا سمندر‘ دل کی کشتی‘ ناخدا تھا میں
ہوائیں تھیں‘ تلاطم تھا‘ سفینہ ڈگمگاتا تھا
بڑا گہرا سمندر تھا جدھر نظریں اٹھاتا تھا
وہ موتی تہ نشیں تھے‘ میں مسافر جن کا جویا تھا
کہاں موتی‘ کہاں میں‘ خود سفینہ ہی ڈبویا تھا
اگر فضل الٰہی دستگیر اپنا نہ ہو جاتا
تو اک ادنیٰ تھپیڑا موج عصیاں کا ڈبو جاتا
تسلسل واردات عشق کا حج ہے کیا خبر تھی
جہاں ہو شرط یکسوئی یہ آوارہ نظر کیا تھی
یہ کیا معلوم تھا ان کی تجلی کیسی ہوتی ہے
خبر کیا تھی کہ دل کیسا تسلی کیسی ہوتی ہے
یہ کیا معلوم تھا کہ چیز خود لیلائے کعبہ ہے
خبر کیا تھی کہ کس رفعت کے اوپر پائے کعبہ ہے
اسے لے دے کے ابراہیم کی تعمیر سمجھا تھا
جو خود ہی جان و قالب ہے اسے تصویر سمجھا تھا
زمین سے عرش اعظم تک کبھی دیکھا نہ تھا میں نے
غضب ہے اپنا پرچم تک کبھی دیکھا نہ تھا میں نے
فقط اک نام سے معمور کے کچھ آشنائی تھی
یہ کیا معلوم تھا کعبہ اسی کی رونمائی تھی
سمجھتا تھا صدا لبیک کی آواز ہے خالی
وہاں پہنچا تو حسرت تھی کہ اپنا ساز ہے خالی
کوئی نغمہ نہ تھا شایان محفل ساز ہستی میں
خدا کا نام بھی لینا نہ سیکھا خود پرستی میں
ہزاروں منزلیں آئیں گئیں‘ میں رہ گیا سوتا
دل بیدار ہی لے کر نہ پہنچا تھا تو کیا ہوتا
زہے وہ آنکھ جو وا از پئے دیدار ہو جائے
زہے وہ دل وہاں جو مہبط انوار ہو جائے
صفا‘ مروہ‘ مقام سعی‘ زمرم‘ خیف‘ چٹانیں