۱؎ حضرت سید احمد شہید a نے بھی حج کے موقع پر اس جگہ دین کے لیے سر فروشی وجاں بازی پر اپنے ساتھیوں سے بیعت لی تھی اور اللہ سے عہد کیا تھا۔
ایک حصہ کل جاچکا باقی آج جار ہے ہیں‘ خیمے اکھڑ رہے ہیں‘ شامیانے لپٹے جا رہے ہیں‘ سامان بار ہو رہا ہے منیٰ پر آخری نگاہ ڈالیے اور مکہ معظمہ کارخ کیجئے۔ رہے نام اللہ کا۔
{کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ لَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ}
(قصص : ۲۸/۸۸)
مکہ معظمہ میں داخل ہو گئے۔ حرم میں نماز پڑھیے اور طواف کیجئے‘ بیت اللہ کو دیکھئے اور دیکھتے رہیے ہر وقت اس کا نیا جمال اور نئی شان ہے۔
کعبہ را ہر دم تجلی فی فزود
ایں ز اخلاصات ابراہیم بود
اتنے دن سے اس کو دیکھ رہے ہیں مگر دل نہیں بھر تانگاہ نہیں تھکتی‘ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود اس ذات عالی کے جمال جہاں آراء کاکیا حال اور اس کی دید کی کیا مسرت ولذت ہوگی۔
آپ بے شک حج سے فارغ ہو گئے‘ اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اور آپ کے اعزہ اور دوستوں اور سب مسلمانوں کے لیے مبارک فرمائے اور آپ کو بار بار لائے‘ مناسک حج میں سے کوئی رکن‘ کوئی فریضہ اور واجب باقی نہیں رہا۔ آپ آج اگر حرم سے چلے جائیں تو کوئی فقیہ آپ کو ٹوک نہیں سکتا‘ آپ کا حج مکمل‘ مناسک حج سب تمام لیکن یہاں سے جانے کی ایسی عجلت کیوں ہے؟ یہاں کا قیام آپ پر خدا نخواستہ بار کیوں ہونے لگا۔ اعزہ کی یاد مسلم ‘ وطن کی کشش برحق۔ دوستوں اور عزیزوں کی ملاقات سرآنکھوں پر‘ لیکن یہاں جو لمحہ گذر جائے غنیمت اور حاصل زندگی‘ مجبوری کی بات اور ہے مگر اپنی طرف سے جلد سے جلد چلے جانے کا اہتمام اور وطن کا اتنا شوق کہ پر لگ جائیں اور اڑ کر پہنچ جائیں‘ اتنی بے مروتی سمجھ میں نہیں آتی اپنے لیے طواف کیجئے‘ اپنے مرحوم دوستوں ‘ عزیزوں‘ استادوں‘ محسنوں‘ رفیقوں اور ساتھیوں کے لیے کیجئے۔ تنعیم جائیے اور عمرہ کے لیے احرام باندھیے اور عمرہ بجالائیے۔ زمزم سے خوب سیراب ہوجئے۔ حرم شریف میں نمازیں پڑھیے‘ اور ہر نماز میں لاکھ نمازوں کا ثواب پایئے قرآن مجید کی تلاوت کیجئے۔ ہمت ہو تو غار حرا کی زیارت کیجئے۔ فرصت ہو تو غریب محلوں اور تکرونیوں کی آبادی میں جاکر ان کی دینی حالت دیکھئے۔ ان سے خود استفادہ کیجئے اور اگر آپ سے کوئی دینی فائدہ پہنچ سکے تو اس سے دریغ نہ کیجئے۔ مکہ معظمہ کے اہل علم وفضل سے ملا قاتیں کیجئے۔ حرم میں اب حجاج کا ہجوم نہیں‘ حجر اسود کا باطمینان استلام کیجئے۔ رکن یمانی کے پاس‘ حطیم کے اندر‘ مقام ابراہیم پر شوق سے نوافل پڑھئے۔ جتنے ارمان باقی رہ گئے ہوں‘ سب نکالیے اور سب شوق سے پورے کیجئے۔
اب اگر صدائے رحیل بلند ہو گئی اور جانا ٹھہر گیا تو طواف وداع کیجئے۔ اور بیت اللہ اور حرم شریف سے رخصت ہو جائیے۔ جدہ میں اگر جہاز میں اتفاقاً دیر ہو اور آپ مکہ معظمہ واپس نہ آسکیں تو ان حجاج میں جو جہازوں کے انتظار میں ٹھہرے ہوئے ہیں۔ اور کسی طرح وقت گزاری کر رہے ہیں چل پھر کر اور مل جل کر پھر دینی