اس میں شبہ نہیں کہ اس کام میں سوفیصدی بلکہ شاید پچاس فیصدی کامیابی بھی یقینی نہیں۔ داعیوں اور کار کنوں کی کمی‘ ان کی بے سروسامانی‘ مجمع کا پھیلائو‘ وقت کی قلت‘ انتشار پر اگندگی نا واقفیت واجنبیت یہ اور بہت سی چیزیں جو تجربہ کے بعد علم میں آئیں گی کامیابی کے راستے میں حائل ہیں‘ لیکن اگر اس عظیم الشان کام میں دس فیصدی کامیابی کا بھی امکان ہو بلکہ سردست کوئی امکان نہ ہو تو بھی ہر قیمت پر یہ سوداسستا ہے کہ اللہ تبارک وتعالیٰ کی رضا کی اس میں قوی امید اور جناب رسول اللہ e کی مکی زندگی سے قریبی نسبت ہے ۔
ع اگر ایں سودا بجاں بودے چہ بودے
کاش اس کو مسلمان اپنی ضروریات میں شامل کر لیتے‘ کاش اس کے لیے کچھ اہل ہمت کچھ اہل توفیق تیار ہو جاتے‘ کاش ہمارے یہ معروضات دلوں میں کچھ آمادگی پیدا کر سکتے۔
آئیے منیٰ کے اس قیام سے فائدہ اٹھائیں اور ذرا دیر کے لیے عقبہ چلیں۔ جہاں مدینہ کے انصاریوں نے پہلے پہل حضور e کے دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی اس کی حمایت ونصرت کا عہد کیا۔ اور جہاں حقیقتاً ہجرت اور مدنی زندگی کی داغ بیل پڑی۔ اسلام کی تاریخ میں اور عالم اسلام کے طویل وعریض رقبہ میں یہ چند گززمین بڑی حرمت وقیمت رکھتی ہے‘ سچ پوچھئے تو بدر کی فتح کا سنگ بنیاد یہیں رکھا گیا‘ تاریخ اسلام کا افتتاح یہیں ہوا‘ عالم اسلام کی تاسیس یہیں عمل میں آئی‘ یہی وہ موقع ہے جہاں اللہ کے نبیؐ سے جو سارے عرب کے مجمع سے مایوس ہو رہا تھا یثرب کے بارہ آدمیوں نے چھپ کر بیعت کی اور اپنی خدمات پیش کیں‘ اگلے سال اسی جگہ تہتر مرد اور دوعورتوں نے بیعت کی اور حضور e کو اہل مدینہ کا پیغام شوق پہنچایا اور مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی حضورؐ نے فرمایا کیا تم دین کی اشاعت میں میری پوری پوری مدد کرو گے اور جب میں تمہارے شہر میں جابسوں کیا تم میری اور میرے ساتھیوں کی حمایت اپنے اہل وعیال کی مانند کرو گے؟ مدینہ والوں نے پوچھا‘ ایسا کرنے کا معاوضہ ہم کو کیا ملے گا‘ فرمایا بہشت‘ اہل مدینہ نے دریافت کیا کہ اے خدا کے رسولؐ ہماری تسلی فرما دیجئے کہ حضور ہم کو کبھی چھوڑ تو نہ دیں گے‘ فرمایا نہیں‘ میرا جینا مرنا تمہارے ساتھ ہوگا اس پر ان حضرات نے بڑے جوش وسرور کے ساتھ بیعت کی۔
یہ جگہ مکہ اور منیٰ کے راستہ میں ہے اور جمرہ اخریٰ سے کچھ دور نہیں آپ اس سے آتے جاتے گزرتے ہوں گے۔ اب اس جگہ مسجد بنی ہوئی ہے‘ مگر وہ وقت نہیں ہے آئیے اب ہم بھی دوچار رکعت نفل پڑھیں‘ اس جگہ اللہ کے بہت سے مخلص بندوں نے اپنے مالک سے بندگی کا عہدو پیمان تازہ کیا اور اپنے رفیقوں کے ساتھ اسلام کی خدمت ونصرت کا عہد کیا۔ ۱؎
آئیے ہم بھی اللہ سے دعا کریں کہ ہم کو اسلام کی خدمت‘ اعلاء کلمۃ اللہ کی کوشش اور سنت نبوی کے احیاء کی جدوجہد کے لیے قبول فرمائے اور ان صادقین کے طفیل صدق واخلاص کی دولت سے کوئی حصہ عطا فرمائے۔
آج ذی الحجہ کی تیرہویں ہے اور منیٰ کے قیام کا آخری دن عارضی آبادی کا