ہے اور معمار حرم کو تعمیر جہاں کا بھولا ہوا کام یاد آسکتا ہے‘ حج اصلاح وانقلاب کی ایک عظیم الشان طاقت ہے مگر کاہلی اور نادانی سے یہ طاقت بہت کچھ ضائع ہو رہی ہے ہر سال ضائع ہوتی ہے اور برس ہا برس سے ضائع ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعامات میں کمی نہیں مگر ہماری طرف سے ناقدری میں بھی کمی نہیں‘ اگر کسی زندہ اور صاحب عمل قوم کو یہ موقع حاصل ہوتا اور اس کو ہر سال بلاکسی جدو جہد اور مادی ترغیب کے محض دینی کشش اور اخروی نفع کی بنا پر یہ عالمگیر اجتماع میسر ہوتا تو وہ تمام عالم میں انقلاب پیدا کر سکتی تھی اور دنیا کے گوشہ گوشہ میں اپنا پیغام پہنچا سکتی تھی۔ دنیا کی بہت سی قومیں جو نبوت اور وحی الٰہی کی عطا کی ہوئی دولتوں سے محروم ہیں حج کے اس بین الاقوامی اجتماع کو جس میں ہر حصہ زمین سے آئے ہوئے لاکھوں مسلمان خرچ کر کے اور راستہ کی صعوبتیں برداشت کر کے اپنے شوق سے جمع ہوتے ہیں رشک وحسد کی نگاہوں سے دیکھتی ہیں۔ ان کو اپنی چھوٹی چھوٹی مجلسوں کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرنے پڑتے ہیں‘ طاقتور پروپیگنڈا کرنا پڑتا ہے۔ پھر بھی کامیابی نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ ان کے ساتھ دینی کشش اور روحانی جذب نہیں‘ لیکن مسلمانوں کو اس مفت کی دولت کی قدر نہیں۔
تعلیم وتربیت‘ دینی تذکیرو دعوت حج کا ضمنی اور ثانوی فائد ہ ہے لیکن کسی طرح نظر انداز کرنے کے قابل نہیں خصوصاً اس عہد میں اس کی ضرورتیں بے حد بڑھ گئی ہیں اگر کسی ایک ملک کے مسلمانوں میں بھی کسی درجہ کا عزم اور نظم پیدا ہو جائے اور اس کے لیے وہ ضروری تیاری کر لیں مخلص دردمند صاحب علم داعی کسی تعداد میں بھی فراہم ہو جائیں اور عالم اسلام کی دوچار زبانوں خصوصاً عربی پر اتنی قدرت حاصل ہو کہ وہ اس میں دعوت کا کام انجام دے سکیں ان کے پاس دعوت کا ضروری سامان بھی ہو۔ عالم اسلام کے لیے پیغام‘ اس کے اصل امراض و مصائب کی تشخیص اور ان کا صحیح علاج‘ دین کی طرف بازگشت کی دعوت امت کی نشأۃ ثانیہ کا راستہ‘ امت کا اصل محل ومقام‘ رسول اللہ e کی بعثت اور اس امت کے ظہور کا مقصد اسلام اور عالم انسانی کا رشتہ‘ آخرت کی دنیا پر ترجیح‘ صحابہ کرام اور قرون اولیٰ کے مسلمانوں کے حقیقی اوصاف و اخلاق۔ ان مضامین پر خود بھی تیار ہوں اور ان حقائق کو ذہن نشین کرنے کے لیے اور بعد تک یاد دہانی کرنے کے لیے مختصر رسائل و مطبوعہ مضامین بھی ہوں۔ ایک ایسی جگہ بھی ہو (عارضی) جہاں وہ منتخب لوگوں کو بیٹھنے‘ گفتگو کرنے اور مطالعہ کرنے کی دعوت دے سکیں اس لیے کہ اتنے وسیع اجتماع میں وہ ہر جگہ نہیں پہنچ سکتے‘ دینی زندگی پیدا کرنے کے لئے ان کے پاس ایک نظام عمل بھی ہو جس کا تجربہ ہر ملک میں کیا جاسکے تو منیٰ کے اس سہ روزہ قیام سے محیر العقول فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔
دوسرے ممالک کے علاوہ خود ہندوستانی حجاج کی ہزاروں کی تعداد ملے گی جس کے پاس وقت گزارنے کے لیے لایعنی باتوں یا فرائض کے بعد کھانے پینے کے سوا کوئی مشغلہ نہیں ان میں بہت بڑی تعداد دین کے ابتدائی اصول و ارکان سے اگر نا واقف نہیں تو غافل ضرور ہو گی اور کم سے کم ان کی دعوت وتذکیر اور ان کے احیاء وترویج کے لیے جدو جہد سے ضرور غافل ہے‘ ان سب کو اس طرف متوجہ کرنا بہت بڑا کام ہے اور اس کام کے لیے منیٰ اور مکہ معظمہ سے بہتر موقع نہیں مل سکتا۔