اور گیارہویں بارہویں تیرہویں کو (اگر تیرہویں کو ٹھہرنا ہو) زوال کے بعد ظہر کی نماز پڑھ کر رمی کا حکم ہے۔ اول جمرئہ اولیٰ کی جو مسجد خیف کے متصل ہے پھر جمرہ وسطیٰ ۱؎ کی پھر جمرہ اخریٰ کی۔
تیرہویں کو منیٰ سے جانے کا عزم ہے ان دنوں میں بشدت اس کا احساس ہوتا ہے کہ منیٰ کے کم سے کم یہ تین دن دینی وعوت اور تعلیم وتربیت کے مغتنم ترین دن ہیں جو مجموعی طور پر عالم اسلام کو اتنے بڑے پیمانے پر کبھی میسر نہیں آسکتے۔ عالم اسلام کا ایک بہترین نمائندہ مجمع جو راہ خدا میں نکلا ہوا ہوتا ہے‘ جس میں اتنے دنوں کے مجاہدہ‘ تعلقات ومشاغل سے انقطاع‘ فاسد ماحول سے بے تعلقی‘ حج کے انوار و تاثیرات کی وجہ سے دین کے جذب وقبول کرنے کی استعداد پیدا ہو چکی ہوتی ہے اور دین وعبادت ہی کے لیے اس کا قیام ہوتا ہے اگر اس وقت سے فائدہ اٹھایا جائے تو برسوں کا کام چند دنوں میں اور ہزاروں میل کا سفر ایک مختصر سے رقبہ میں طے ہو جائے۔ ایک جہاز پر اگر ایک ملک یا چند صوبوں کا قافلہ ہوتا ہے اور اس کے اوقات دین اور علم دین کے لیے فارغ ہوتے ہیں تو منیٰ کے میدان میں
پورے عالم اسلام کا کارواں اترا ہوا ہوتا ہے اور دین کے لیے فارغ۔ مگر صدحیف کہ ایسی فرصت سے دینی تعلیم وتربیت اور اسلامی دعوت کا فائدہ قطعاً نہیں اٹھایا جاتا ہماری زندگی کی چول اپنی جگہ سے ایسی ہٹی ہوئی ہے کہ کسی چیز سے بھی ہم فائدہ نہیں اٹھاسکتے۔ صرف منیٰ کے قیام کے یہ دن اور حجاج کا یہ مجمع ایسا تھا کہ اس
۱؎ رمی کے مفصل احکام کتب مناسک میں دیکھے جائیں۔
سے پورے عالم اسلام میں دین کی روح پھونکی جاسکتی تھی اور دعوت کا جذبہ پیدا کیا جا سکتا تھا۔
یہ مجمع ایک بادبہاری تھا جو سارے عالم میں دینی دعوت واصلاح کے بیج بکھیر سکتا تھا اور دین کے ہزاروں چمن کھلا سکتا تھا پچاس حکومتیں ہزاروں انجمنیں سیکڑوں اخبارات و رسائل لاکھوں مبلغ و داعی وہ کام نہیں کر سکتے جو منیٰ کی ایک منظم دعوت اور ایک تربیت یا فتہ جماعت کر سکتی ہے۔ پہلے یہ سب حج کے ثمرات ومنافع میں داخل تھا۔
’’لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ‘‘ کا مفہوم اتنا تنگ نہیں جتنا سمجھا جاتا ہے۔ آنحضرت e نے امت کو جو آخری عالمگیر نصیحت فرمائی ہے وہ عرفات ومنیٰ کے میدان ہی میں فرمائی۔ عرفات ومنیٰ کا مخاطب مجمع ہی اس کی صلاحیت رکھتا تھا کہ فرمایا جاتا لیبلغ الشاھد الغائب فرب مبلغ اوعی من سامع (دیکھو جو موجود ہے وہ میری یہ باتیں ان تک پہنچادے جو یہاں موجود نہیں) اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو بالواسطہ سنتا ہے وہ اپنے کانوں سے سننے والے سے زیادہ سمجھنے والا اور یاد رکھنے والا ہوتا ہے)
حج ہی کے موقع پر سورہ برأت کی ابتدائی آیات اور مشرکین کے احکام کا اعلان ہوا‘ حج ہی کے موقع پر ایک خلقت نے آنحضرت e سے براہ راست دین کی تعلیم حاصل کی‘ حج ہی کے موقع پر بلاد و امصار کے طالب علم دین سیکھنے‘ احکام معلوم کرنے ‘ حدیث سننے جمع ہوا کرتے تھے حج آج بھی عالم اسلام میں زندگی کی لہر پیدا کر سکتا ہے حج ہی کے ذریعہ اس بھٹکے ہوئے قافلہ کو اپنی گم کردہ منزل نظر آسکتی