طور پر عید کی نماز پڑھی جارہی ہوگی۔ لیکن اللہ کی شان یہاں عید کی نماز نہیں‘ کسی کو خیال بھی نہیں منیٰ کی عید یہی ہے کہ رمی کی جائے یعنی کنکریاں ماری جائیں‘ روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیمu جب حضرت اسمٰعیل کو ذبح کرنے چلے تو شیطان سب سے پہلے اس جگہ ملا اور اس نے ان کو اس ارادے سے باز رکھنا چاہا حضرت ابراہیم نے اس کو سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا‘ آگے بڑھ کر پھر دوسرے جمرے کی جگہ نظر آیا وہاں بھی سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ زمین میں گھس گیا حضرت ابراہیمؑ نے ہر عمل پیغمبر انہ اخلاص اور عاشقانہ کیفیت کے ساتھ کیا تھا۔ وہ اللہ سے پہلے مانگ چکے تھے کہ :
{وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرْیْنَ} (شعراء ۲۶/۸۴)
’’میرا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھ۔ ‘‘
اور فرما دیا گیاتھا:
{وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرْیْنَ سَلَامٌعَلٰی اِبْرَاھِیْمَ}
(صافات: ۳۷/۱۰۸‘۱۰۹)
’’ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا‘ سلام ہو ابراہیم پر۔ ‘‘
اس لیے اللہ نے ان کے ہر فعل کو زندگی جاوداں بخشی اور اس کی یاد گار باقی رکھی۔ آج ان افعال کی نقل میں بھی عشق کی کیفیت اور زندگی وتازگی ہے۔بشر طیکہ دل محبت وعظمت اور ایمانی کیفیات سے بالکل خالی نہ ہو حج کی ہر چیز میں عاشقانہ کیفیت اور محبوبانہ ادا ہے۔ سعی وطواف تو عشق وجذب کی کھلی نشانیاں ہیں مگر یہ رمی (کنکری مارنا بھی) عجیب پیاری ادا ہے۔ عاشقیت ومحبوبیت توام ہیں۔ سچے عشق کے ساتھ جو چیز کی جائے گی اس پر اہل دل کو پیار ہی آئے گا۔ رمی کرتے وقت اگر دل میں سیدنا ابراہیمؑ کی محبت‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کا جذبہ اور اپنے دشمن حقیقی سے نفرت کا جوش ہو تو رمی عجب بہار کی چیز ہے‘ عجب عبادت ہے اور اگر یہ کیفیات اتفاقاً نہ ہوں یا ان کا استحضار نہ ہو تو بھی حکم الٰہی کی اطاعت کسی حال میں فائدہ سے خالی نہیں۔
رمی جمرات کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں پڑھی تھی۔ اس کے مقاصدو حکم حج کے سفر ناموں میں دیکھے تھے‘ لیکن اس کا صحیح تصور اور نقشہ ذہن میں بالکل نہ تھا۔ جمرات کی کیا صورت ہے‘ رمی کس طرح ہوتی ہے کچھ اندازہ نہ تھا‘ منیٰ پہنچ کر رمی کی فکر ہوئی۔ دوستوں میں جو لوگ پہلے سال حج کر چکے تھے ان کو لے کر جمرہ اخریٰ پر پہنچے۔ آج دسویں کو صرف اسی جمرہ کی جو سب سے آخر میں ہے‘ رمی کرنا ہے رمی کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ ایک حوض سابنا تھا‘ اس کے اوپر ایک لکڑی لگائی گئی تھی تاکہ دور والوں کو اندازہ ہو سکے‘ حوض میں کنکریوں کا ڈھیر تھا۔ بعض لوگوں نے غصہ میں جوتے بھی مارے تھے‘ بعض سادہ دل لوگوں میں نفرت وعداوت کا وہی جذبہ تھا جو اپنے دشمن سے ہوتا ہے‘ بعض مصریوں کو سنا گیا کہ بڑے غصہ سے مارتے اور کہتے تھے ’’کتے!پھر پریشان کرے گا‘ پھر گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا!‘‘
مجمع بہت تھا‘ اگر کوئی نظم کیا بھی جاتا تو مشکل تھا‘ کام صرف کنکریاں پھینکنا تھا مگر اس عمل میں بھی ایک عبادت اور سنجیدگی کی شان تھی۔ اہل ذوق کو اس میں بھی