Deobandi Books

آپ حج کیسے کریں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

72 - 139
طور پر عید کی نماز پڑھی جارہی ہوگی۔ لیکن اللہ کی شان یہاں عید کی نماز نہیں‘ کسی کو خیال بھی نہیں منیٰ کی عید یہی ہے کہ رمی کی جائے یعنی کنکریاں ماری جائیں‘ روایات میں آتا ہے کہ حضرت ابراہیمu جب حضرت اسمٰعیل کو ذبح کرنے چلے تو شیطان سب سے پہلے اس جگہ ملا اور اس نے ان کو اس ارادے سے باز رکھنا چاہا حضرت ابراہیم نے اس کو سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ وہ زمین میں دھنس گیا‘ آگے بڑھ کر پھر دوسرے جمرے کی جگہ نظر آیا وہاں بھی سات کنکریاں ماریں یہاں تک کہ زمین میں گھس گیا حضرت ابراہیمؑ نے ہر عمل پیغمبر انہ اخلاص اور عاشقانہ کیفیت کے ساتھ کیا تھا۔ وہ اللہ سے پہلے مانگ چکے تھے کہ :
{وَاجْعَلْ لِّیْ لِسَانَ صِدْقٍ فِی الْاٰخِرْیْنَ} (شعراء ۲۶/۸۴) 
’’میرا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھ۔ ‘‘ 
اور فرما دیا گیاتھا: 
{وَتَرَکْنَا عَلَیْہِ فِی الْاٰخِرْیْنَ سَلَامٌعَلٰی اِبْرَاھِیْمَ} 
(صافات: ۳۷/۱۰۸‘۱۰۹) 
’’ہم نے ان کا ذکر خیر پچھلوں میں باقی رکھا‘ سلام ہو ابراہیم پر۔ ‘‘
اس لیے اللہ نے ان کے ہر فعل کو زندگی جاوداں بخشی اور اس کی یاد گار باقی رکھی۔ آج ان افعال کی نقل میں بھی عشق کی کیفیت اور زندگی وتازگی ہے۔بشر طیکہ دل محبت وعظمت اور ایمانی کیفیات سے بالکل خالی نہ ہو حج کی ہر چیز میں عاشقانہ کیفیت اور محبوبانہ ادا ہے۔ سعی وطواف تو عشق وجذب کی کھلی نشانیاں ہیں مگر یہ رمی (کنکری مارنا بھی) عجیب پیاری ادا ہے۔ عاشقیت ومحبوبیت توام ہیں۔ سچے عشق کے ساتھ جو چیز کی جائے گی اس پر اہل دل کو پیار ہی آئے گا۔ رمی کرتے وقت اگر دل میں سیدنا ابراہیمؑ کی محبت‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کے حکم کی اطاعت کا جذبہ اور اپنے دشمن حقیقی سے نفرت کا جوش ہو تو رمی عجب بہار کی چیز ہے‘ عجب عبادت ہے اور اگر یہ کیفیات اتفاقاً نہ ہوں یا ان کا استحضار نہ ہو تو بھی حکم الٰہی کی اطاعت کسی حال میں فائدہ سے خالی نہیں۔ 
رمی جمرات کی تفصیل فقہ کی کتابوں میں پڑھی تھی۔ اس کے مقاصدو حکم حج کے سفر ناموں میں دیکھے تھے‘ لیکن اس کا صحیح تصور اور نقشہ ذہن میں بالکل نہ تھا۔ جمرات کی کیا صورت ہے‘ رمی کس طرح ہوتی ہے کچھ اندازہ نہ تھا‘ منیٰ پہنچ کر رمی کی فکر ہوئی۔ دوستوں میں جو لوگ پہلے سال حج کر چکے تھے ان کو لے کر جمرہ اخریٰ پر پہنچے۔ آج دسویں کو صرف اسی جمرہ کی جو سب سے آخر میں ہے‘ رمی کرنا ہے رمی کرنے والوں کا ہجوم تھا۔ ایک حوض سابنا تھا‘ اس کے اوپر ایک لکڑی لگائی گئی تھی تاکہ دور والوں کو اندازہ ہو سکے‘ حوض میں کنکریوں کا ڈھیر تھا۔ بعض لوگوں نے غصہ میں جوتے بھی مارے تھے‘ بعض سادہ دل لوگوں میں نفرت وعداوت کا وہی جذبہ تھا جو اپنے دشمن سے ہوتا ہے‘ بعض مصریوں کو سنا گیا کہ بڑے غصہ سے مارتے اور کہتے تھے ’’کتے!پھر پریشان کرے گا‘ پھر گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا!‘‘ 
مجمع بہت تھا‘ اگر کوئی نظم کیا بھی جاتا تو مشکل تھا‘ کام صرف کنکریاں پھینکنا تھا مگر اس عمل میں بھی ایک عبادت اور سنجیدگی کی شان تھی۔ اہل ذوق کو اس میں بھی 
x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عازم حج کے نام 6 1
3 عرض ناشر 4 2
4 مرتب کی طرف سے 5 2
5 اچھے رفیق کی تلاش 6 2
6 اخلاص اور تصحیح نیت 7 2
7 گناہوں سے توبہ واستغفار 7 2
8 امیر قافلہ اور قافلہ کا تعلیمی نظام 8 2
9 بمبئی اور کراچی میں تبلیغی جماعتیں 9 2
10 بمبئی اور کراچی کی مدت قیام میں آپ کے مشاغل 9 2
11 جہاز پر سوار ہوتے وقت 9 2
12 سمندری سفر کا زمانہ 9 2
13 حج کی تین صورتیں 10 2
14 حج تمتع کا طریقہ 11 2
15 احرام کی پابندیاں 12 1
16 معلم کو پہلے سے سوچ رکھیے 12 1
17 جدہ 13 15
18 جدہ سے مکہ معظمہ 13 15
19 حد حرم 13 15
20 مکہ معظمہ میں داخلہ 14 15
21 مسجد حرام کی حاضری اور طواف 14 15
22 طواف کی دعائیں 15 15
23 رکعتین طواف 19 15
24 ملتزم پر دعا 20 15
25 زم زم شریف پر 21 1
26 صفا ومروہ کے درمیان سعی 21 25
27 حج سے پہلے مکہ معظمہ کے زمانۂ قیام کے مشاغل 23 25
28 آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام اور منیٰ کو روانگی 23 25
29 نصیب فرما اور میری ساری خطائیں معاف فرما۔‘‘ 24 25
30 ایک کار آمد نکتہ 24 25
31 ۸ ذی الحجہ کو منیٰ میں آپ کے مشاغل 25 25
32 نویں کی صبح کو عرفات روانگی 25 25
33 عرفات کا پروگرام 25 25
34 عرفات میں اپنا ایک مشاہدہ 26 25
35 جبل رحمت کے قریب دعا 27 25
36 اپنی مغفرت کا یقین 27 25
37 عرفات سے مزدلفہ 28 25
38 شب مزدلفہ کی فضیلت 28 25
39 رسول اللہﷺ کی ایک خاص دعا 29 25
40 مزدلفہ سے منیٰ کو روانگی 30 25
41 منیٰ میں جمرات کی رمی 30 25
42 دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرئہ عقبہ کی رمی 31 25
43 تلبیہ ختم 31 25
44 قربانی 31 25
45 حلق یاقصر 32 25
46 پھر منیٰ کو روانگی 33 25
47 ۱۱‘ ۱۲‘ ۱۳ ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام اور رمی جمار 33 1
48 رمی جمار کے بعد دعا کی اہمیت 33 47
49 منیٰ کے ان دنوں میں آپ کے مشاغل 33 47
50 منیٰ میں دینی دعوت کی سنت کا احیاء 34 47
51 حج قران اور افراد 34 47
52 منیٰ سے مکہ معظمہ واپسی اور چند روز قیام 35 47
53 بیت اللہ کا داخلہ 37 47
54 خاص مقامات میں دعا کے متعلق ایک آخری مشورہ 38 47
55 مکہ معظمہ سے روانگی اور طواف رخصت 38 47
56 مدینہ طیبہ کو روانگی 40 47
57 گنبد خضرا پر پہلی نظر 40 47
58 اس سیاہ کار کی التجا 43 1
59 مواجہہ شریف میں اطمینانی حاضری کے اوقات 44 1
60 جنت البقیع 45 58
61 جبل احد 46 58
62 مدینہ طیبہ کے فقراء ومساکین 46 58
63 اللہ اللہ کر کے روانگی کی تاریخ آئی 48 58
64 تمنا ہے درختوں پہ ترے روضہ کے جا بیٹھے 57 58
65 کہ نصیب جاگے‘ حاضری دیجئے اور عرض کیجئے 58 58
66 جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے 60 58
67 یہ بلبلوں کا صبا مشہد مقدس ہے قدم سنبھال کے رکھیو یہ تیرا باغ نہیں 61 58
68 یارب البیت‘ یارب البیت کی صدا بلند ہے۔ 68 58
69 وداع کعبہ 78 1
70 حرم نبوی میں داخلہ کے وقت 83 69
71 از حضرت مولانا مفتی محمد شفیعa 84 69
72 نعت سرکار مدینہ 84 69
73 کیف حضوری 85 69
74 بے تابیٔ شوق 87 69
75 عرض احسن 89 69
76 ہم غریبوں کا بھی سلطان غریباں کو سلام 99 69
77 حجاج کرام کے لیے حرمین شریفین میں روز مرہ کے لیے عربی بول چال کے چند ضروری الفاظ 101 69
Flag Counter