ما یشاء ویحکم ما یرید۔
اب لاکھوں انسانوں کی یہ بستی یہاں سے تین میل پر منتقل ہو جائے گی۔ شہر کا اجڑنا اور بسنا کچھ ہنسی کھیل نہیں ایک شور قیامت برپا ہو ایک طوفان بے تمیزی لیکن یہاں کچھ نہیں‘ حکم لایا تھا حکم لے جارہا ہے۔ غلاموں کی طرح آئے تھے غلاموں کی طرح جانا ہے۔ لیجئے خیمے اکھڑے طنابیں ڈھیلی ہوئیں شامیانے تہہ ہوئے‘ دیکھتے دیکھتے یہ جیتا جاگتا شہرلق و دق میدان بن گیا جو جوان ہمت اور سواری کے پابند نہ تھے وہ آزادی سے وقت مسنون پر روانہ ہوگئے جو ضعیف اور عورتوں کی وجہ سے مجبور تھے ان کو سواری کی وجہ سے دقت پیش آئی اور انتظار کرنا پڑا۔ سواری کے آنے میں دیر ہوئی۔ ایک گھنٹہ گزرا‘ دوسرا‘ تیسرا‘ رات کے آٹھ بجے‘ نو بجے‘ دس بجے‘ سواری نہ اب آتی ہے نہ تب‘ اب میدان میں جہاں تک نظر کام کرتی ہے ہمارے چھوٹے سے قافلہ کے سوا کوئی نظر نہیں آتا‘ لاریاں آتی ہیں اور نکل جاتی ہیں۔ کوئی ادھر کارخ نہیں کرتی‘ رات گزری چلی جارہی ہے۔ مزدلفہ میں بسر ہونے والی رات کا خاصا حصہ عرفات میں گزرا جارہا ہے‘ یا الٰہی کیا ہو گا۔ کیا ہم یہیں رہ جائیں گے‘ یا ہم مزدلفہ سے محروم رہیں گے۔ مستورات کا ساتھ‘ دن بھر کے تھکے ماندہ‘ معلم صاحب بھی عاجزو مجبور‘ کچھ سمجھ میں نہیں آتا‘ پیمانہ صبر لبریز ہونے لگا‘ ڈرائیور پر غصہ‘ معلم پر خفگی‘ سب بے سود‘ آدھی رات ہونے کو آئی‘ خدا خدا کرکے لاری آئی تیوری چڑھی تلخ وتندلہجہ میں ڈرائیور سے محاسبہ کیا کہ کہاں اتنی دیر لگ گئی‘ کیا حجاج کو اذیت دینا تم لوگوں کے نزدیک کار ثواب ہے؟ اس نے آسانی سے کہہ دیا کہ راستہ صاف نہ تھا گھنٹوں میں پہلی کھیپ پہنچی اور بہ مشکل واپسی ہوئی‘ کہہ کر افسوس ہوا کاش کچھ نہ کہا ہوتا اللہ کا شکر ادا کیا ہوتا کہ اس نے آخر پہنچا دیا۔ اب بھی اگر لاری نہ آتی تو کیا کرتے ؟یہی فرق ہے بڑوں اور چھوٹوں میں۔
عرفات اور مزدلفہ کے درمیان خدا کی شان نظر آتی ہے‘ موٹروں اور لاریوں کا ایک بڑا سیلاب‘ اتنا بڑا سیلاب زندگی بھر نہیں دیکھا سب کو پہنچنے کی جلدی ہے مگر کوئی حادثہ نہیں‘ لیجئے مزدلفہ پہنچ گئے۔ ایک میدان میں کئی لاکھ مسافر اترے ہوئے‘ اطمینان کی جگہ کا کیا سوال‘ جہاں موقع مل جائے غنیمت ہے۔ ایک جگہ سامان جمع کر کے درمیان میں لیٹ رہے‘ کچھ دیر کے بعد آنکھ کھلی سارا میدان جگمگا رہا تھا‘ مزدلفہ ہنستا ہوا معلوم ہوتا تھا‘ کیا خیر وبرکت کی رات ہے جو وقت مل جائے غنیمت ہے‘ لوگوں نے صبح سے پہلے ہی روانہ ہونا شروع کر دیا‘ ناواقفیت اور جہالت اور سبھی کے ساتھ جلد بازی بھی ایک مصیبت ہے‘ یہاں کی سنت صبح ہونے کے بعد یہاں سے چلنا ہے۔ مگر لوگوں کو منیٰ میں جلد پہنچنے کی ہیبت اور لاری والوں کا بے کار ٹالنا‘ تاریکی اور ناواقفیت میں مشعر حرام کا توپتہ نہ چل سکا جہاں دعا کرنامسنون ہے اور قرآن مجید میں صاف طور پر ہے :
{فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرْ الْحَرَامْ}
جب اجالا ہو گیا تو پتہ چلا اور اس مسجد میں جاکر جو جبل قزح کے پاس ہے کچھ دیر دعا کی پھر کنکریاں چنیں اور ساتھ لیں اور منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔ ایک دن کا اجڑا منیٰ اللہ کے حکم سے پھر آباد ہے‘ آج دسویں ذی الحجہ ہے۔ یعنی عین عیدالاضحی‘ آج تمام روئے زمین پر جہاں جہاں مسلمان آباد ہیں۔ یہیں کی یاد گار کے