بچاتی ہوئی نکلتی رہتی ہیں‘ دکانوں پر سودے بک رہے ہیں‘ شربت کے گلاس کے دور چل رہے ہیں‘ صرافوں کی دکانوں پر سودے بک رہے ہیں‘ شربت کے گلاس کے دور چل رہے ہیں‘ صرافوں کی دکانوں پر روپیہ گننے اور سکوں کے گرنے کی آواز کانوں میں آرہی ۱؎ ہے لیکن عشاق کا مجمع سر جھکائے نظر بچائے اپنی دھن میں چلا جا رہا ہے عشق کی پوری تصویر‘ دنیا میں مومن کے رہنے کی مکمل تفسیر‘ خلوت درانجمن کا پورا منظر‘ دنیا کے بازار میں چلتی پھرتی مسجدیں اور گرجتی ہوئی اذانیں‘ سعی کیا ہے مومن کی پوری زندگی‘ بھرے بازار‘ پھولوں سے لدے گلزار میں رہنا اور دل نہ لگانا‘ مقصد کو پیش نظر رکھنا‘ مبداء ومنتہیٰ کونہ بھولنا‘ اپنے کام سے کام رکھنا‘ صفا سے چل کر نہ مروہ کو فراموش کرنا نہ مروہ سے چل کر صفا کو بھول جانا‘ کہیں نہ الجھنا‘ پیہم گردش‘ مسلسل عمل‘ مسعیٰ میں دونوں طرف دکانوں کے ہونے اورسعی کے اس محل وقوع نے سعی میں ایک خاص معنویت اور لطف پیدا کر دیا ہے۔
آپ کو اس راستہ پر عالم اسلام کے گوشہ گوشہ اور چپہ چپہ کے مسلمان ایک لباس میں ملبوس ایک ترانہ بلند کرتے ہوئے‘ ایک عشق وسرمستی کی کیفیت میں آتے
۱؎ مسجد حرام کی توسیع کے بعد مسعیٰ کا بازار اب ختم ہو گیا ہے اور پورا مسعیٰ گویا مسجد حرام میں آگیا ہے۔ (نعمانی)
جاتے نظر آئیں گے‘ تیز قدم بڑھاتے ہوئے ننگاسر اللہ کے سامنے جھکائے ہوئے چلے جار ہے ہیں‘ ان میں امیر بھی ہیں غریب بھی‘ سرخ و سفید شامی ومغربی بھی‘ اور سیاہ فام حبشی وتکرونی بھی‘ مرد بھی اور عورت بھی۔ لیکن کسی کو دیکھنے اور توجہ کرنے کی فرصت نہیں‘ بعض اوقات اس مجمع عشاق کو دیکھ کر قلب پر عجیب کیفیت طاری ہوتی ہے اور بے اختیار ان عشاق کے پائوں پڑنے اور بلائیں لینے کو جی چاہتا ہے۔ اسلام کی محبت جوش مارتی ہے وطن وقوم کی حدبندیاں ٹوٹنے لگتی ہیں اور دینی وحدت کا احساس ابھرنے لگتا ہے۔
لیجئے مروہ پر سعی ختم ہوئی‘ ساتواں پھیر اتمام ہوا۔ دعا کیجئے‘ اور اگر آپ متمتع ہیں تو حجام کے پاس جا کر بال بنوائیے احرام کھول دیجئے‘ اور اگر قارن یا مفرد ہیں تونہ حجامت بنوائیے نہ احرام کھولیے۔
اب روزانہ کا معمول یہ ہے کہ صبح صادق سے پہلے حرم میں آگئے‘ کبھی رکن یمانی کے سامنے مصلیٰ مالکی کے پاس‘ کبھی حطیم کے سامنے مصلیٰ حنفی کے نزدیک‘ کبھی مصلیٰ حنبلی سے ملے ہوئے‘ اور کبھی قسمت سے مقام ابراہیم کے پاس یا مصلیٰ شافعی کے دائیں بائیں نوافل پڑھے‘ کبھی ہر دو رکعت کے بعد ایک طواف کیا‘ کبھی نوافل کے بعد اکٹھے کئی طواف کرلیے‘ غرض جس طرح موقع ملا نوافل اور طواف میں وقت گزارا۔ صبح کی اذان ہوئی‘ نماز پڑھی اس وقت طواف کرنے والوں کا ہجوم ہوتا ہے۔ خدا جانے کتنے اولیاء اللہ اور مقبولین بارگاہ ہوتے ہیں۔ عامہ مومنین بھی کیا کم ہیں۔ طلوع آفتاب تک طواف کئے پھر اکٹھا طواف کی رکعتیں پڑھیں۔ اشراق پڑھی اور قیام گاہ پر آگئے۔
مکہ معظمہ میں طواف سے بہتر مشغلہ اور وظیفہ کیا۔ سارا دن آدمی طواف کر سکتا ہے بعض آدمی بیس بیس‘ تیس تیس طواف دن بھر میں کر لیتے ہیں۔ ’’ فضائل حج‘‘ میں ہے کہ کر زبن وبرہ کا معمول تھا کہ ستر طواف دن میں اور ستر طواف رات میں