دعائوں کی قبولیت کا ایک اطمینان سا ہونے لگتا۔ خدا کی طرف رجوع وانابت کا یہ ایک ایسا منظر تھا کہ دنیا کی کوئی قوم اس کی نظیر پیش نہیں کر سکتی اس سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ اس امت کو اس گئی گذری حالت میں بھی اپنے مالک سے جو تعلق ہے اس کا عشر عشیر بھی کہیں نظر نہیں آتا۔ معلوم ہوتا تھا کہ دل سینے سے نکل جائیں گے‘ قلب وجگر آنسو بن کر بہہ جائیں گے‘ لوگ غش کھا کر گر جائیں گے۔
ان دعائوں میں سب سے بڑا حصہ مغفرت وعفو‘ رضائے الٰہی‘ حسن خاتمہ
اور جنت کی دعائوں کا تھا‘ اللہ سے مادی سے مادی چیز کا مانگنا بھی مادیت نہیں‘ سراسر روحانیت وعبادت ہے‘ لیکن ان دعائوں میں آخرت و روحانیت کا حصہ اس عالم مادی کی چیزوں سے بہرحال زیادہ تھا‘ افکار وپریشانیوں کے اس دور میں اللہ کے بہت سے بندے صرف اللہ کی محبت‘ تو فیق اطاعت ‘ شان عبودیت‘ اخلاص‘ رسول اللہ e کی محبت‘ عشق کامل‘ اتباع سنت‘ دین کی خدمت اور اسلام پر جینے اور مرنے کی دعا کر رہے تھے‘ بہت سے اللہ کے بندے اپنی دنیاوی ضرویات کو بے تکلف مانگ رہے تھے کہ وہ کریم ہے اس کے دروازے اور اس کے آستانہ پر نہ مانگی جائیں تو کس سے اور کہاں مانگی جائیں گی۔ بہت سے اللہ کے بندے کعبہ کے پردے میں منہ ڈالے ہوئے گریہ و بکا اور مناجات ودعا میں مشغول تھے۔ غرض یہاں سائلوں کا ہجوم اور فقراء کا جمگھٹا تھا‘ رب کریم کا دروازہ کھلا تھا اور بے صبر ومضطر سائل سوال و طلب میں بالکل کھوئے ہوئے تھے۔
ملتزم سے ہم زمزم پر آئے‘ پہلی مرتبہ آسودہ ہو کر زمزم شریف پیا اس کے اصل مقام پر پیا‘ پھر باب الصفا سے نکل کر ہم سعی کے لیے مسعیٰ آئے‘ ہمیشہ سے یہ تصور تھا کہ صفا اور مروہ دو پہاڑ ہیں ان کے درمیان ایک غیر آباد ساراستہ ہوگا‘ طول طویل‘ اس پر لوگ دوڑتے ہوں گے‘ یہاں کچھ اور ہی نظر آیا‘ پہاڑ کھد کر اس سے بڑی بڑی عمارتیں بن گئی تھیں۔ پختہ سڑک کے کنارے ایک ذراسی بلندی تھی چند سیڑھیوں کا ایک زینہ تھا‘ اس پر چڑھ کر سعی کی نیت کی اور کہا:
((ابدا بما بدأ اللہ بہ ان الصفا والمروۃ من شعائر اللہ))
’’جس چیز کو اللہ نے مقدم رکھا ہے اسکو میں بھی مقدم رکھتا ہوں‘ بے شک صفا اور مروہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہیں۔‘‘
بیت اللہ کی طرف منہ کرے ہاتھ اٹھا کر حمدوثنا تکبیرو تہلیل کی‘ دعا کی‘ پھر اترے اور مروہ کی طرف چلے۔ میل کے سبز نشانوں کے درمیان (جہاں حضرت ہاجرہ اسماعیل u کے اوجھل ہوجانے کی وجہ سے بے قرار ہو کر دوڑتی تھیں) ذرادوڑ کر چلے پھر معمول کی چال چلنے لگے۔ ادھر مروہ کی طرف جانے والوں اور مروہ سے صفا کی طرف آنے والوں کے قافلے قطار اندر قطار ملتے رہے کبھی جاوی پاس سے گزر جاتے‘ کبھی مصری چھیلتے ہوئے نکل جاتے‘ کبھی مراکشی وجزائری سامنے سے آتے نظر آتے‘ کبھی ترکی وبخاری راستہ میں ساتھ ہو جاتے‘ کبھی تکرونی و سوڈانی قدم بڑھا کر آگے ہو جاتے‘ ہر ایک احرام میں ملبوس‘ ننگے سر‘ ننگے پائوں‘ عاشقانہ حال‘ مستانہ چال‘ دنیا سے بے خبر‘ اپنی دھن میں مست۔ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ اِنَّکَ اَنْتَ الْاَعَزُّالاَْکْرَمُ کی صدائوں سے فضا گونجتی ہوئی‘ دونوں طرف پر رونق دکانیں‘ مسعیٰ کا بازار اپنے پورے شباب اور بہار پر‘ موٹریں اور کاریں ہارن بجاتی ہوئی اور آدمیوں کو