سے چمٹ سکتے ہیں عمر میں بڑی بڑی حسین وجمیل عمارتیں اور فن تعمیر کے بڑے بڑے نمونے دیکھے‘ لیکن اس سادہ سے چوکور گھر میں خدا جانے کیا حسن وجمال اور کیا دلکشی و محبوبیت ہے کہ آنکھوں میں کھبا جاتا ہے‘ اور دل میں سمایا جاتا ہے۔ کسی طرح نظر ہی نہیں بھرتی تجلیات الٰہی اور انوار کا ادراک تو اہل نظر کر سکتے ہیں لیکن جلال وجمال کا ایک پیکر ہم جیسے بے حسوں اور کم نظروں کو بھی نظر آتا ہے۔ اور یہ صاف محسوس ہوتا ہے کہ اس کو دیکھنے سے آنکھوں کو سیری اور دل کو آسودگی نہیں ہوتی۔ جی چاہتا ہے کہ دیکھتے ہی رہیے۔ اس کی مرکز یت وموزونیت اس کی زیبائی ور عنائی‘ جلال وجمال کی آمیزش الفاظ سے بالا تر ہے۔
محاسنہ ھیولے کل حسن
و مقناطیس افئدۃ الرجال
اس کا دیکھتے رہنا دل کا سرور‘ آنکھوں کا نور‘ روح کی غذا اور نظر کی عبادت ہے دل کی کلفت اس سے کافور‘ دماغ کا تکان اس سے دور ہوتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے عجیب نعمت عطا فرمائی ہے۔ سارے عالم کی دلکشی ‘ دل آویزی اس میں سمٹ کر آگئی ہے۔ ذی الحجہ کا مہینہ شروع ہو چکا ہے‘ حجاج کا ہجوم ہے‘ بیت اللہ کے گرد طواف کرنے والوں کا چکر چل رہا ہے‘ سیاہ غلاف کے چاروں طرف سفید احرام میں ملبوس انسانوں کی گردش‘ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سیاہ کعبہ کے گرد دودھ کی ایک نہربہہ رہی ہے‘ ہم بھی آدمیوں کے اس بہتے ہوئے دریا میں داخل ہوئے۔
ہمارے معلم ہمارے ساتھ تھے‘ انہوں نے ہمیں طواف کرایا‘ وہ طواف کی دعائیں پڑھتے جاتے تھے ہم اس کو دہراتے تھے‘ پھر ہم کو محسوس ہوا کہ اس طرح تو طواف کا لطف آرہا ہے نہ دعائوں کا۔ اس لیے جو مسنون دعائیں یاد تھیں ہم نے وہ پڑھنی شروع کر دیں چونکہ ہم کو اس طواف کے بعد سعی بھی کرنی تھی اس لیے ہم نے رمل واضطباع بھی کیا۔ ہجوم کی وجہ سے استلام (حجر اسود کو بوسہ دینے) کی نوبت نہیں آتی تھی‘ حجر اسود کے سامنے پہنچ کر ہاتھ کا اشارہ کر دیتے تھے۔ طواف کے بعد ہم مقام ابراہیم پر آئے اور دورکعت واجب الطواف پڑھی‘ پھر ملتزم پر آئے‘ یہ حجر اسود اور باب کعبہ کے درمیان کا حصہ ہے۔ یہاں اللہ کے بندے بیت اللہ کی دیوار اور اس کے غلاف سے چمٹے ۱؎ ہوئے اس طرح بلک بلک کر رو رہے
۱؎ عبدالرحمن بن صفوان t فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ e اور صحابہ کو بیت اللہ سے نکلتے ہوئے دیکھا انہوں نے بیت اللہ کو ملتزم کی جگہ پر بوسہ دیا‘ ان کے رخسارے کعبہ پر تھے اور رسول اللہ e ان کے درمیان میں تھے (ابودائودباب الملتزم)
محمد بن عبداللہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے والد عبداللہ بن عمر کو دیکھا کہ انہوں نے حجر اسود کو بوسہ دیا اور ملتزم پر ٹھہرے اور اپنا سینہ اور چہرہ اور اپنی دونوں بانہیں اور ہتھیلیاں اس پر رکھ دیں اور ان کو اچھی طرح پھیلا دیا (یعنی چمٹ گئے) پھر فرمایا کہ میں نے اسی طرح رسول اللہ e کو کرتے دیکھا ہے۔ (ابودائود‘ باب الملتزم)
تھے اور اللہ کے گھر کا واسطہ دے کر اس کی چوکھٹ سے لپٹ کر اللہ سے مانگ رہے تھے‘ جس طرح ستائے ہوئے بچے اپنی ماں سے چمٹ کر روتے اور بلبلاتے ہیں‘ جس وقت وہ یَارَبَّ الْبَیْتَ ’’یَا رَبَّ البَیْتَ‘‘ ’’اے گھر والے‘ اے گھر کے مالک‘‘ کہتے تو ایک کہرام مچ جاتا‘ سخت سے سخت دل بھی بھر آتا‘ آنکھیں اشکبار ہو جاتیں اور