یہی عالم اسلام کا حال ہونا چاہیے۔ یہاں بھی یا تووہ ہونے چاہئیں جو اپنا کام پورا کر چکے‘ یا وہ جو وقت کے منتظر ہیں‘ تیسری قسم ان لوگوں کی ہے‘ جو زندگی کے حریص اور دنیا پر راضی‘ موت سے خائف اور خدمت سے گریزاںہوں‘ معاش میں سرتاپا منہمک اور عارضی مشاغل میں ہمہ تن غرق ہوں‘ ان کی گنجائش نہ مدینہ میں تھی نہ عالم اسلام میں ہونی چاہیے۔ مدینہ کے قیام میں درود شریف‘ تلاوت قرآن اور اذکار سے جو قوت بچے اگر حدیث اور سیرت وشمائل کے مطالعہ میں گزرے تو بہت پر تاثیر اور بابرکت ہو گا‘ اسی پاک سر زمین پر یہ سب واقعات پیش آئے یہاں ان واقعات کا مطالعہ اور کتب شمائل میں مشغولیت بہت کیف آور موجب ترقی ہوگی۔ اردو خواں حضرات قاضی سلیمان صاحب منصور پوریa کی ’’رحمۃ للعالمین‘‘ اور شیخ الحدیث سہارنپوری کی ’’خصائل نبوی‘‘ (ترجمہ شمائل ترمذی) کو حرزجان بنائیں۔ اہل عرب حافظ ابن قیم کی ’’ زادالمعاد‘‘ اور شمائل ترمذی‘‘ سے اشتغال رکھیں‘ جن کو آثار مدینہ منورہ کی زیارت وتحقیق کا ذوق ہو ان کے لیے سمہودی کی وفاء الوفاء باخبار دارالمصطفیٰ‘ ‘ اور’’ آثار المدینۃ المنورہ‘‘ کا مطالعہ مفید ہوگا۔
لیجئے قیام کی مدت ختم ہونے کو آئی‘ کل کہتے ہیں کہ قافلہ کا کوچ ہے۔
حیف در چشم زدن صحبت یار آخر شد
روئے گل سیر ندیدیم و بہار آخر شد
اب رہ رہ کر اس قیام کے سلسلہ کی کوتاہیاں اور یہاں کے حقوق کی ادائیگی میں اپنی تقصیر دل میں چٹکیاں لیتی ہے۔ اب استغفار وندامت کے سوا کیا چارہ ہے۔ آج کی رات مدینہ کی آخری رات ہے‘ ذرا سویرے مسجد میں آجائیے۔
تمتع من شمیم عرار نجد
فما بعد العشیۃ من عرار
لیکن دل کو ایک طرح کا سکون بھی حاصل ہے‘ آخر جا کہاں رہے ہیں‘ اللہ کے رسول کے شہر سے اللہ کے شہر کی طرف‘ اللہ کے اس گھر سے جس کو محمد p اور ان کے ساتھیوں نے اپنے پاک ہاتھوں سے بنایا اور جاکیوں رہے ہیں اللہ کے حکم سے اور اللہ کے رسولؐ کی مرضی سے اور ہدایت سے‘ یہ دوری دوری کب ہوئی۔
نہ دوری دلیل صبوری بود
کہ بسیار دوری ضروری بود
آخری سلام عرض کیا‘ مسجد نبوی پر حسرت کی نگاہ ڈالی‘ اور باہر نکلے‘ غسل کر کے احرام کی تیاری کرلی تھی‘ ذوالحلیفہ میں جانے کا موقع ملے نہ ملے‘ موٹر پر بیٹھے‘ محبوب شہر پر محبت کی نگاہ ڈالتے چلے‘ احد کو ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اب مدینہ سے باہر ہو گئے‘ جو لمحہ گزرتا ہے مدینہ دور اور مکہ قریب ہوتا جاتا ہے۔ الحمد للہ کہ ہم حرمین کے درمیان ہی ہیں۔
صد شکر کہ ہستیم میان دو کریم
ذوالحلیفہ آگیا مسجد میں دو رکعت نماز احرام کی نیت سے پڑھی سلام پھیرتے ہی سرکھول دیا اور ہر طرف سے آواز آئی:
((لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ))