ساری دنیا میں پھیلا ہوا ہے یہاں بھی اپنا کام کرتی رہی۔ ان کے نوجوانوں کو متاثر کرتی رہی بجائے خوبیوں اور محاسن کے تمام عالم اسلام کے حجاج وزائرین اپنی اپنی مقامی کمزوریاں اپنے ساتھ لاتے رہے اور یہاں چھوڑ کر جاتے رہے۔ دینی دعوت وتذکیر جو ایمانی زندگی کے لیے ہوا اور پانی کی حیثیت رکھتی ہے عرصہ سے مفقود‘ صحیح تعلیم وتربیت معدوم‘ ایسا ادب جو ایمان کو غذا اور دماغ کو روشنی عطا کرے نایاب‘ تزکیہ نفس‘ تہذیب اخلاق اور روحانیت پیدا کرنے والے مرکز غیر موجود‘ مختلف راستوں سے مریض ومد قوق ادب‘ فاسد و خام افکار و مضامین‘ اخبار ورسائل ادب و اجتماع کے نام سے گھر گھر پھیلے ہوئے‘ زہر موجود‘ تریاق مفقود‘ اگر اب بھی اہل مدینہ میں دین کی اتنی عظمت ومحبت‘ رسول اللہ e سے تعلق مدینہ سے انس‘ اخلاق میں لینت و تواضع‘ فرائض کی پابندی‘ شعائر اسلامی کا رواج ہے تو یہ محض جوار رسول کی برکت‘ اس خاک پاک کی تاثیر اور اہل مدینہ کی فطری خوبی کی دلیل ہے۔
اب بھی اغنیاء امت اور عالم اسلام کے اہل ثروت اس ضرورت کی طرف متوجہ نہیں‘ کہ اہل حجاز کی صحیح تعلیم وتربیت اور ان میں دعوت وتذکیر کا انتظام کریں جو ان میں دینی روح‘ مقصدیت‘ بلند نظری اور اسلام کے داعی بننے کا جذبہ اور ولولہ پیدا کرے اور ’’ معمار حرم‘‘ کو ’’ تعمیر جہاں‘‘ کے لیے دوبارہ آمادہ کرے۔ اِنَّمَا اَشْکُوْا بَثِّیْ وَحُزْنِیْ اِلَی اللّٰہِ اگر آپ مدینہ طیبہ کے مضافات اور بدؤوں کی ان عارضی نو آبادیوں میں چل پھر کر دیکھیں گے جو کھجوروں کی فصل میں اپنے پہاڑی مقامات سے اتر کر چشموں اور باغات میں اپنے خیمے ڈال کر مقیم ہو جاتے ہیں تو آپ کو ان کی دینی حالت کا احساس ہو گا۔ اور اگر ہمارا ضمیرا بھی مردہ نہیں ہوا ہے تو ہم اپنی اس غفلت اور کوتاہی پر شرم محسوس کریں گے جو ہم نے اپنے مرشد زادوں کے حق میں صدیوں سے اختیار کر رکھی ہے۔ اگر آپ کا تھوڑا وقت نظم وانضباط کے ساتھ مدینہ کی آبادی اور اس کے اطراف میں دینی دعوت واصلاح میں گزر جائے گا تو وہ مدینہ طیبہ کی فضا سے انتفاع کی بڑی موثر صورت ہوگی مگر ان کی عظمت اور ان کے مرتبہ کی رعایت بہت ضروری ہے ان کو تحقیر کی نگاہ سے ہرگزنہ دیکھیں۔
مدینہ دعوت اسلام کا معدن ہے اس دعوت کو اس معدن سے اخذ کیجئے اور اپنے اپنے ملک کے لیے یہ سوغات لے کر آئیے‘ کھجوریں‘ گلاب و پودینہ‘ خاک شفا محبت کی نگاہ میں سب کچھ ہیں مگر اس سرزمین کا اصلی تحفہ اور یہاں کی سب سے بڑی سوغات دعوت اور اسلام کے لیے جدو جہد اور جان دے دینے کا عزم ہے۔ مدینہ مسجد نبویؐ کے چپہ چپہ‘ بقیع شریف کے ذرہ ذرہ‘ احد کی ہر ہر کنکری سے یہی پیغام دیتا ہے۔ مدینہ آکر کوئی یہ کیسے بھول سکتا ہے کہ اس شہر کی بنیاد ہی دعوت وجہاد پر پڑی تھی یہاں وہی لوگ مکہ سے آکر آباد ہوئے تھے جن کے لیے مکہ میں سب کچھ تھا‘ مگردعوت وجہاد کے مواقع نہ تھے‘ یہاں کی آبادی دوہی حصوں پر منقسم تھی ایک وہ جس نے اپنا عہد پورا کر دیا اور اسلام کے راستے میں جان‘ جان آفریں کے سپرد کردی‘ کوئی خوف‘ کوئی ترغیب اس کو اپنے مقصد سے بازنہ رکھ سکی۔ دوسرا وہ جس نے اپنی طرف سے پوری کوشش کی لیکن اللہ کو ابھی ان سے اور کام لینا منظور تھا ان کا جو وقت گزرتا حالت انتظار میں گزرتا‘ شہادت کے اشتیاق میں گزرتا۔
{مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رْجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاھَدُوا اللّٰہَ عَلَیْہِ فَمِنْھُمْ مَّنْ قَضَا نَحْبَہٗ وَمِنْھُم مَّنْ یَّنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلًا٭}