دل سینے سے نکلا جاتا ہے‘ کیا واقعی ہم عرب کی سر زمین پر ہیں‘ کیا ہم اب
۱؎ یہ مضمون جس زمانہ کا لکھا ہوا ہے اس وقت تک جدہ کا بحری پلیٹ فارم نہیں بنا تھا‘ اب بن گیا ہے اور جہاز پلیٹ فارم پر ہی رکا رہتا ہے۔
دیار محبوب میں ہیں‘ کیا ہم مکہ معظمہ سے چند میل کے فاصلہ پر ہیں؟ ع
آنچہ ما بینیم بہ بیداریست یا رب یا بخواب
سامان کا انتظام کیا اور اپنا پاسپورٹ دکھاتے اور معلم کا نام بتاتے پلیٹ فارم سے باہر آئے اللہ اللہ درودیوار سے عاشقیت ٹپکتی ہے‘ مکہ معظمہ ابھی دور ہے‘ اور مدینہ طیبہ اس سے بھی دور‘ جدہ کوئی مقدس مقام نہیں‘ نہ یہاں بیت اللہ نہ یہاں مسجد نبویؐ نہ یہ حرم ابراہیمؑ نہ یہ حرم رسول اللہ e ‘ لیکن محبت کا آئین نرالا ہے اس کو کیا کیجئے کہ جدہ کی گلیوں سے بھی انس اور محبت معلوم ہوتی ہے۔ غریب الدیار مسافر کو یہاں پہنچ کر بوئے انس آئی‘ برسوں کی محبت نے اپنی پیاس بجھائی‘ محبت‘ فلسفہ اور قانون سے آزاد ہے‘ یہاں کے قلی اور مزدور‘ سیاہ فام سوڈانی اور پیراہن دریدہ بدو بھی دل کو اچھے لگتے ہیں۔ یہاں کے دکانداروں‘ خوانچہ فروشوں کی صدائیں‘ معصوم بچیوں اور بچوں کی گیتیں جن میں وہ حجاج سے سوال کرتے ہیں دل میں اتری چلی جاتی ہیں۔ محبت عقل کو تنقید کی فرصت ہی نہیں دیتی اور اچھا ہے کہ کچھ دن اس کو فرصت نہ دے۔
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
قافلہ کو پہلے مدینہ طیبہ جانا ہے‘ دوتین دن حکومت کے مطالبات ادا کرنے میں اور موٹر کے انتظار میں گزرے‘ لیجئے انتظار کی گھڑیاں تمام ہوئیں‘ موٹر آگئی‘ موٹر پر سوار ہوئے‘ سامان بار کیا‘ اچھا ہے کہ ایک عربی داں سمجھ دار ساتھی ڈرائیور کے ساتھ بیٹھ جائے تاکہ نماز پڑھنے اور ضروریات کے لیے روکنے میں آسانی ہو‘ بہتر ہے کہ ڈرائیور کے ساتھ اچھا سلوک کر دیا جائے راستہ میں بڑی راحت ملے گی‘ موٹر روانہ ہوئی‘ راستہ میں درود شریف سے بہتر کیا وظیفہ اور مشغلہ ہے‘نمازوں کے اوقات میں موٹر روکی گئی‘ اذان و جماعت کے ساتھ نماز ہوئی‘ منزلیں آئیں اور گزر گئیں‘ غربت کے مارے نیم برہنہ عرب بچے اور بچیاں جن کے جسم پر کپڑوں کے تار اور دھجیاں تھیں‘ موٹر کا دور تک تعاقب کرتیں اور آخرتھک کر رہ جاتیں‘ ان کی غربت کو دیکھ کر کلیجہ منہ کو آتا ۱؎اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان میں کتنے صحابہ کرام y کی اولاد اور عراق وشام کے فاتحین کی نسل میں سے ہیں‘ ایمانی اور مادی حیثیت سے اگر کوئی شہزادہ کہلانے کا مستحق ہے تو ساری دنیا کے یہ شہزادے اور دنیائے اسلام بلکہ عالم انسانیت کے محسنوں اور مخدوموں کی یہ اولاد ہیں‘ بے حقیقت سکوں کے ساتھ جو آپ اپنی حقیر خواہشات میں بے دریغ خرچ کرتے رہتے ہیں‘ اگر آنسو کے چند قطرے بھی آپ بہادیں تو شاید گناہوں کا کفارہ ہو جائے۔
نظر اٹھا کر دیکھئے‘ یہ دونوں پہاڑوں کی قطاریں ہیں‘ کیا عجب ہے کہ ناقہ نبویؐ اسی راستہ سے گزری ہو۔ یہ فضا کی دلکشی‘ یہ ہوا کی دلآویزی اسی وجہ سے ہے:
الا ان واد الجزع اضحیٰ ترابہ