من المسک کافورا و اعوارہ رندا
و ما ذاک الا ان ھندا عشیۃ
وما ذاکا لا ھندا عشیۃ
تمشت وجرت فی جوانبہ بردا
لیجئے مسیجد۲؎ آ گئی‘ اب بیر علی (ذوالحلیفہ) کی باری ہے:
۱؎ جس زمانہ میں یہ مضمون لکھا گیا تھا اس وقت غربت وافلاس کا یہی حال تھا‘ اب الحمدللہ اس کا نشان بھی باقی نہیں ہے۔ نعمانی شوال ۸۳ ۱۳ھ
۲؎ مدینہ کے راستہ میں ایک منزل کا نام ہے۔
منزل دوست چوں شود نزدیک
آتش شوق تیز تر گردد
درود شریف زبان پر جاری ہے۔ دل وفور شوق سے امنڈ رہا ہے‘ عرب ڈرائیور حیران ہے کہ یہ عجمی کیا پڑھتا ہے اور کیوں روتا ہے‘ کبھی عربی میں گنگناتا ہے‘ کبھی دوسری زبانوں میں شعر پڑھتا ہے۔ بھینی بھینی ہوا ہے اور ہلکی ہلکی چاندنی‘ جس قدر مدینہ طیبہ قریب ہوتا جارہا ہے ہوا کی خنکی‘ پانی کی شیرینی اور ٹھنڈک لیکن دل کی گرمی بڑھتی جار ہی ہے‘ سنئے کو ئی کہہ رہا ہے:
باد صبا جو آج بہت مشکبار ہے
شاید ہوا کے رخ پہ کھلی زلف یار ہے
………
وہ ایک بار ادھر سے گئے مگر اب تک
ہوائے رحمت پروردگار آتی ہے
………
عجب کیا گر مہ وپروین مرے نخچیر ہو جائیں
کہ بر فتراک صاحب دولتے بستم سر خود را
وہ دانائے سبل ختم الرسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادیٔ سینا
………
خاک یثرب از دو عالم خوشتر است
اے خنک شہرے کہ آنجا دلبراست
………
داغ غلامیت کرد رتبہ خسرو بلند
میر ولایت شود بندہ کہ سلطان خرید
………
محمد عربی کا بروئے ہر دوسراست
کسے کہ خاک درش نیست خاک بر سر او
………
لیجئے ذوالحلیفہ آگیا‘ رات کا باقی حصہ یہاں گزارنا ہے‘ غسل کیا‘ خوشبو لگائی کچھ