Deobandi Books

آپ حج کیسے کریں - یونیکوڈ - غیر موافق للمطبوع

54 - 139
واقع ہوئی ہے تو مناسب ہے کہ اکتسابی طریقہ سے کسی نہ کسی درجہ میں محبت کی حرارت پیدا کی جائے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر بعض اوقات حج ایک قالب بے روح ہو کر جاتا ہے۔ محبت میں اکتساب کو اچھا خاصا دخل ہے اس کے دو آزمودہ طریقے ہیں۔ ایک محبوب کے جمال وکمال اور اس کے احسانات وکمالات کا مطالعہ ومراقبہ‘ دوسرے اہل محبت کی صحبت‘ اور اگر وہ میسر نہ ہو تو ان کے عاشقانہ واقعات‘ حج سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے یہ دونوں راستے ممکن ہیں‘ پہلے کا ذریعہ تلاوت اور ذکر وتفکر ہے دوسرے کا ذریعہ عشاق ومحبین اور شہیدان محبت کے پر اثر واقعات ہیں جس میں صدیاں گزر جانے کے بعد بھی تازگی اور گرمی باقی ہے اور اب بھی وہ دلوں کی سردانگیٹھیاں گرما دیتے ہیں اور بجھے ہوئے دلوں کو تڑپا دیتے ہیں۔ شیخ دہلوی aکی’’ جذب القلوب‘‘ اور شیخ الحدیث سہارنپوریa کی ’’ فضائل حج ‘‘ نیز جامی وخسرو; کی عاشقانہ غزلیں اور نعتیہ کلام اس مقصد کے لیے بہت مفید ہیں۔۱؎ 
 اگر محبت کی یہ گرمی اور سوز‘ فطری یا کسی طور پر موجود ہے تو روز بروز منزل کی کشش بڑھے گی جب اس سر زمین مقدس کی جلتی ہوئی پہاڑیاں اور تپتی ہوئی ریت دور سے ہی کہیں دکھائی دے گی جس میں کوئی مادی کشش اور کوئی ظاہری حسن نہیں‘ تو سوجان سے اس پر قربان ہو جانے کو جی چاہے گا اور اس کے ذرہ ذرہ میں دل آویزی اور محبوبیت معلوم ہوگی۔ 
لیجئے اعلان ہو رہا ہے کہ فلاں وقت ہمارا جہاز ہندوستانیوں کے میقات یلملم کے محاذات میں پہنچے گاحجاج احرام باندھنے کے لیے تیار رہیں‘ آج کئی دن سے تلبیہ کی مشق اور لبیک لبیک کی صدا گونج رہی ہے‘ دیکھتے دیکھتے وہ وقت 

؎۱؎ 	اس قسم کی منتخب اردو نظموں کا ایک حصہ کتاب کے آخر میں شامل ہے
آگیا‘ لوگ پہلے سے غسل کئے ہوئے نماز پڑھ کر احرام کی دوبے سلی چادریں ایک اوپر ایک نیچے باندھے تیار تھے‘ بعض کے سر پہلے سے کھلے اور بعض کے ڈھکے تھے کہ ایک دم سے سیٹی بجی‘ سرکھل گئے اور ہر طرف سے صدا بلند ہوئی: 
((لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ))  
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے پہلے مدینہ طیبہ کا عزم کیا ہے‘ انہوں نے ابھی احرام نہیں باندھا وہ مدینہ طیبہ سے چل کر ’’ ذوالحلیفہ‘‘ سے جس کو آج کل ’’بیر علی‘‘ کہتے ہیں‘ احرام باندھیں گے جو اہل مدینہ کا میقات ہے اور یہاں سے حضور اکرم e نے احرام باندھا تھا۔ 
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی‘ اب جدہ پہنچنے کی باتیں ہونے لگیں۔ تیر کی طرح ایک کشتی آئی‘ ارکاٹی عرب جہاز پر چڑھا اور حجاج یورپین کپتان کی ناخدائی سے نکل کر ایک باخدا جہازران کی رہنمائی میں آئے۔ بات کرتے کرتے جہاز لنگر انداز ہوا۔ ملاحوں کا لشکر غریب حجاج پر ٹوٹ پڑا۔ حجاج بادبانی کشتیوں اور موٹر لانچ کے ذریعہ جدہ کے پلیٹ فارم یعنی عرب کی سر زمین پر پہنچ گئے۔۱؎ 
ھذا الذی کانت الایام ننتظر 
فلیوف للہ اقوام بما نذروا 

x
ﻧﻤﺒﺮﻣﻀﻤﻮﻥﺻﻔﺤﮧﻭاﻟﺪ
1 فہرست 1 0
2 عازم حج کے نام 6 1
3 عرض ناشر 4 2
4 مرتب کی طرف سے 5 2
5 اچھے رفیق کی تلاش 6 2
6 اخلاص اور تصحیح نیت 7 2
7 گناہوں سے توبہ واستغفار 7 2
8 امیر قافلہ اور قافلہ کا تعلیمی نظام 8 2
9 بمبئی اور کراچی میں تبلیغی جماعتیں 9 2
10 بمبئی اور کراچی کی مدت قیام میں آپ کے مشاغل 9 2
11 جہاز پر سوار ہوتے وقت 9 2
12 سمندری سفر کا زمانہ 9 2
13 حج کی تین صورتیں 10 2
14 حج تمتع کا طریقہ 11 2
15 احرام کی پابندیاں 12 1
16 معلم کو پہلے سے سوچ رکھیے 12 1
17 جدہ 13 15
18 جدہ سے مکہ معظمہ 13 15
19 حد حرم 13 15
20 مکہ معظمہ میں داخلہ 14 15
21 مسجد حرام کی حاضری اور طواف 14 15
22 طواف کی دعائیں 15 15
23 رکعتین طواف 19 15
24 ملتزم پر دعا 20 15
25 زم زم شریف پر 21 1
26 صفا ومروہ کے درمیان سعی 21 25
27 حج سے پہلے مکہ معظمہ کے زمانۂ قیام کے مشاغل 23 25
28 آٹھویں ذی الحجہ کو حج کا احرام اور منیٰ کو روانگی 23 25
29 نصیب فرما اور میری ساری خطائیں معاف فرما۔‘‘ 24 25
30 ایک کار آمد نکتہ 24 25
31 ۸ ذی الحجہ کو منیٰ میں آپ کے مشاغل 25 25
32 نویں کی صبح کو عرفات روانگی 25 25
33 عرفات کا پروگرام 25 25
34 عرفات میں اپنا ایک مشاہدہ 26 25
35 جبل رحمت کے قریب دعا 27 25
36 اپنی مغفرت کا یقین 27 25
37 عرفات سے مزدلفہ 28 25
38 شب مزدلفہ کی فضیلت 28 25
39 رسول اللہﷺ کی ایک خاص دعا 29 25
40 مزدلفہ سے منیٰ کو روانگی 30 25
41 منیٰ میں جمرات کی رمی 30 25
42 دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرئہ عقبہ کی رمی 31 25
43 تلبیہ ختم 31 25
44 قربانی 31 25
45 حلق یاقصر 32 25
46 پھر منیٰ کو روانگی 33 25
47 ۱۱‘ ۱۲‘ ۱۳ ذی الحجہ کو منیٰ میں قیام اور رمی جمار 33 1
48 رمی جمار کے بعد دعا کی اہمیت 33 47
49 منیٰ کے ان دنوں میں آپ کے مشاغل 33 47
50 منیٰ میں دینی دعوت کی سنت کا احیاء 34 47
51 حج قران اور افراد 34 47
52 منیٰ سے مکہ معظمہ واپسی اور چند روز قیام 35 47
53 بیت اللہ کا داخلہ 37 47
54 خاص مقامات میں دعا کے متعلق ایک آخری مشورہ 38 47
55 مکہ معظمہ سے روانگی اور طواف رخصت 38 47
56 مدینہ طیبہ کو روانگی 40 47
57 گنبد خضرا پر پہلی نظر 40 47
58 اس سیاہ کار کی التجا 43 1
59 مواجہہ شریف میں اطمینانی حاضری کے اوقات 44 1
60 جنت البقیع 45 58
61 جبل احد 46 58
62 مدینہ طیبہ کے فقراء ومساکین 46 58
63 اللہ اللہ کر کے روانگی کی تاریخ آئی 48 58
64 تمنا ہے درختوں پہ ترے روضہ کے جا بیٹھے 57 58
65 کہ نصیب جاگے‘ حاضری دیجئے اور عرض کیجئے 58 58
66 جو تجھ بن نہ جینے کو کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے 60 58
67 یہ بلبلوں کا صبا مشہد مقدس ہے قدم سنبھال کے رکھیو یہ تیرا باغ نہیں 61 58
68 یارب البیت‘ یارب البیت کی صدا بلند ہے۔ 68 58
69 وداع کعبہ 78 1
70 حرم نبوی میں داخلہ کے وقت 83 69
71 از حضرت مولانا مفتی محمد شفیعa 84 69
72 نعت سرکار مدینہ 84 69
73 کیف حضوری 85 69
74 بے تابیٔ شوق 87 69
75 عرض احسن 89 69
76 ہم غریبوں کا بھی سلطان غریباں کو سلام 99 69
77 حجاج کرام کے لیے حرمین شریفین میں روز مرہ کے لیے عربی بول چال کے چند ضروری الفاظ 101 69
Flag Counter