واقع ہوئی ہے تو مناسب ہے کہ اکتسابی طریقہ سے کسی نہ کسی درجہ میں محبت کی حرارت پیدا کی جائے۔ اس لیے کہ اس کے بغیر بعض اوقات حج ایک قالب بے روح ہو کر جاتا ہے۔ محبت میں اکتساب کو اچھا خاصا دخل ہے اس کے دو آزمودہ طریقے ہیں۔ ایک محبوب کے جمال وکمال اور اس کے احسانات وکمالات کا مطالعہ ومراقبہ‘ دوسرے اہل محبت کی صحبت‘ اور اگر وہ میسر نہ ہو تو ان کے عاشقانہ واقعات‘ حج سے مناسبت پیدا کرنے کے لیے یہ دونوں راستے ممکن ہیں‘ پہلے کا ذریعہ تلاوت اور ذکر وتفکر ہے دوسرے کا ذریعہ عشاق ومحبین اور شہیدان محبت کے پر اثر واقعات ہیں جس میں صدیاں گزر جانے کے بعد بھی تازگی اور گرمی باقی ہے اور اب بھی وہ دلوں کی سردانگیٹھیاں گرما دیتے ہیں اور بجھے ہوئے دلوں کو تڑپا دیتے ہیں۔ شیخ دہلوی aکی’’ جذب القلوب‘‘ اور شیخ الحدیث سہارنپوریa کی ’’ فضائل حج ‘‘ نیز جامی وخسرو; کی عاشقانہ غزلیں اور نعتیہ کلام اس مقصد کے لیے بہت مفید ہیں۔۱؎
اگر محبت کی یہ گرمی اور سوز‘ فطری یا کسی طور پر موجود ہے تو روز بروز منزل کی کشش بڑھے گی جب اس سر زمین مقدس کی جلتی ہوئی پہاڑیاں اور تپتی ہوئی ریت دور سے ہی کہیں دکھائی دے گی جس میں کوئی مادی کشش اور کوئی ظاہری حسن نہیں‘ تو سوجان سے اس پر قربان ہو جانے کو جی چاہے گا اور اس کے ذرہ ذرہ میں دل آویزی اور محبوبیت معلوم ہوگی۔
لیجئے اعلان ہو رہا ہے کہ فلاں وقت ہمارا جہاز ہندوستانیوں کے میقات یلملم کے محاذات میں پہنچے گاحجاج احرام باندھنے کے لیے تیار رہیں‘ آج کئی دن سے تلبیہ کی مشق اور لبیک لبیک کی صدا گونج رہی ہے‘ دیکھتے دیکھتے وہ وقت
؎۱؎ اس قسم کی منتخب اردو نظموں کا ایک حصہ کتاب کے آخر میں شامل ہے
آگیا‘ لوگ پہلے سے غسل کئے ہوئے نماز پڑھ کر احرام کی دوبے سلی چادریں ایک اوپر ایک نیچے باندھے تیار تھے‘ بعض کے سر پہلے سے کھلے اور بعض کے ڈھکے تھے کہ ایک دم سے سیٹی بجی‘ سرکھل گئے اور ہر طرف سے صدا بلند ہوئی:
((لَبَّیْکَ اَللّٰھُمَّ لَبَّیْکَ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَۃَ لَکَ وَالْمُلْکَ لاَ شَرِیْکَ لَکَ))
کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جنہوں نے پہلے مدینہ طیبہ کا عزم کیا ہے‘ انہوں نے ابھی احرام نہیں باندھا وہ مدینہ طیبہ سے چل کر ’’ ذوالحلیفہ‘‘ سے جس کو آج کل ’’بیر علی‘‘ کہتے ہیں‘ احرام باندھیں گے جو اہل مدینہ کا میقات ہے اور یہاں سے حضور اکرم e نے احرام باندھا تھا۔
وقت گزرتے دیر نہیں لگتی‘ اب جدہ پہنچنے کی باتیں ہونے لگیں۔ تیر کی طرح ایک کشتی آئی‘ ارکاٹی عرب جہاز پر چڑھا اور حجاج یورپین کپتان کی ناخدائی سے نکل کر ایک باخدا جہازران کی رہنمائی میں آئے۔ بات کرتے کرتے جہاز لنگر انداز ہوا۔ ملاحوں کا لشکر غریب حجاج پر ٹوٹ پڑا۔ حجاج بادبانی کشتیوں اور موٹر لانچ کے ذریعہ جدہ کے پلیٹ فارم یعنی عرب کی سر زمین پر پہنچ گئے۔۱؎
ھذا الذی کانت الایام ننتظر
فلیوف للہ اقوام بما نذروا