عاشق الٰہی صاحب میرٹھی aکی ’’زیارۃ الحرمین‘‘ مفتی صاحب مظاہر العلومa کی ’’معلم الحجاج‘‘ مولانا عبدالماجد دریابادی aکا ’’ سفر نامہ حجاز‘‘ شیخ عبدالحق دہلوی aکی ’’جذب القلوب الیٰ دیار المحبوب‘‘ ساتھ ہے۔ راستہ میں خواہ مخواہ کی وقت گذاری اور لایعنی گفتگو کی نوبت ہی نہیں آئی‘ مولوی احتشام الحسن کاندھلوی a کی ’’ رفیق حج‘‘ کے متعدد نسخے ساتھ ہیں۔ ساتھیوں کو دے دیئے کہ ایک دوسرے کو پڑھ کرسنائیں۔ بات کرتے کرتے آخری اسٹیشن آگیا‘ مسافر اترے‘ سامان اتارا‘ سب کو اتارکر اور سب کچھ دیکھ بھال کر امیر صاحب اترے‘ قافلہ مسافر خانے پہنچا‘ سب اپنی اپنی جگہ مقیم ہوئے‘ مستورات کے پردے کا پورا انتظام کیا۔ ابھی جہاز کی روانگی میں ایک ہفتہ باقی ہے۔ اکثر ضروریات سفرہمراہ ہیں پاسپورٹ بن چکا ہے‘ اگر نہیں بنا تو آسانی سے بن جائے گا‘ ٹکٹ کا مرحلہ بھی مشکل نہیں‘ سب کی صلاح ہوئی کہ یہ ہفتہ اپنی تیاری اور حجاج کی خدمت گزاری میں صرف ہو‘ سنا ہے کہ جس نوع کی خدمت مسلمانوں کی کی جائے اسی نوع کی مدد اللہ کی طرف سے ہوتی ہے‘ جو مسلمانوں روٹی کھلائے گا‘ اللہ اس کی روٹی کا انتظام فرمائے گا۔ جس کو مسلمانوں کی نماز کی فکر ہوگی اللہ اس کی نماز کی حفاظت اور اس کی ترقی کا انتظام فرمائے گا۔ اس لیے اگر حج کی صحت اور اس کی روح کی فکر کی جائے گی تو ہمیں بھی اپنے حج کی مقبولیت اور اس کی روحانیت کی امید کرنی چاہیے۔ اللہ فی عون العبد ما کان العبد فی عون اخیہ (جب تک ایک شخص اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے‘ اللہ تعالیٰ اس کی مدد میں رہتا ہے ) قرار پایا کہ حجاج کا دائرہ بہت وسیع ہے‘ کسی ایک کے بس کی بات نہیں‘ اس لیے جماعتیں بنائی جائیں اور اجتماعی طور پر نظم وانتظام سے کام شروع کیا جائے‘ خوش قسمتی سے تبلیغی جماعت کے افراد موجود ہیں حجاج کی دینی ضروریات کی تکمیل اور حج کے مسائل وفضائل لوگوں تک پہنچانے کی سعی کرتے ہیں۔ ان کی جماعت کو تلاش کرکے ان میں شرکت کی۔ جو معلومات کتابوں کے مطالعہ سے مشکل سے حاصل ہوتی ہیں وہ ان کے ذریعہ ان کے تجربوں سے آسانی سے حاصل ہوگئیں۔
مسافر خانہ اور حاجی کیمپ میں حجاج کی حالت دیکھا کر سخت قلق ہوتا ہے‘ حج کا سا عظیم الشان اور مقدس سفر جو سراسر عشق ومحبت کی تکمیل اور ایمان وتقویٰ کی تصویر ہے اور حالت یہ کہ فرض نمازوں تک کا اہتمام نہیں‘ بیچ مسافر خانہ میں مسجد بنی ہوئی ہے‘ جہاں پانچ وقت بآواز بلند اذانیں ہوتی ہیں۔ وضو اور غسل کا انتظام ہے‘ مگر ذرا ذراسی حقیقی وخیالی ضرورتوں کی وجہ سے بے تکلف جماعت چھوڑدی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ منظر یہ ہے کہ بغیر کسی مشغولیت کے بھی بیسیوں آدمی نمازیں قضا کرتے ہیں۔ وقت مقرر ہوا جماعتیں بنیں‘ حجاج کی خدمت میں حاضری کا موقع ملا‘ سامان کی تیاری میں سخت انہماک ہے مگر اصل تیاری سے پوری غفلت۔ ضرورت کی کوئی چیز (جس کی ممکن ہے پورے سفر میں ضرورت نہ ہو) رہ نہ جائے‘ مگردین کے مبادی اور ارکان کی طرف ذرا بھی توجہ نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ‘ زندگی کی سب سے بڑی ضرورت اور حج کی بنیاد‘ مگر خدا معاف کرے ہمارے دوستوں کو بات سننے کی بھی فرصت نہیں‘ بہرحال خو شامد درآمد سے متوجہ ہوئے‘ دیکھ کر عقل حیران ہوگئی کہ کئی صاحبوں کا کلمہ تک درست نہیں‘ اور مفہوم سے تو بہت کم آشنا‘ جماعتوں کی حاضری کی طرف توجہ دلائی اور عرض کیا کہ