جس وقت گھر سے نکلے‘ سفر شروع ہوگیا اور زبان پر یہ مسنون الفاظ آگئے جو بالکل مناسب حال ہیں۔
((اَللّٰھُمَّ بِکَ اِنْتَشَرْتُ وَاِلَیْکَ تَوَجَّھْتُ وَبِکَ اِعْتَصَمْتُ وَعَلَیْکَ تَوَکَّلْتُ اَنْتَ ثَقْتِیْ وَ اَنْتَ رِجَائِیْ اَکْفِنِیْ مَا اَھَمَّنِیْ وَمَا لَا اَھْتَمُّ بِہٖ وَمَا اَنْتَ اَعْلَمُ بِہٖ مِنِّیْ عَزَّ جَارِکَ وَجَلَّ ثَنَائُکَ وَلاَ اِلٰہَ غَیْرُکَ زَوِّدْنِی التَّقْوٰی وَاغْفِرْلِیْ ذُنُوْبِیْ وَوَجِّھْنِیْ لِلْخَیْرِ اَیْنَمَا تَوَجَّھْتُ))
’’اے اللہ! میں تیرے سہارے چل کھڑا ہوا ہوں اور تیری طرف رخ کر دیا ہے‘ اور تجھے مضبوط پکڑ لیا ہے‘ اور تجھ پر بھروسہ کیا ہے‘ تو ہی میرا سہارا ہے تو ہی میرا آسرا ہے‘ جس چیز کی مجھے فکر ہے اور جس کی مجھے فکر نہیں اور جس کو تو زیادہ جانتا ہے سب کا توخود ہی انتظام فرما دے‘ تیرے جوار میں آنے والا غالب و محفوظ ہے تیری مدح و توصیف بلند ہے تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ تقویٰ کو میرا زاد راہ بنا‘ میرے گناہوں کو معاف فرما‘ اور جس طرف رخ کروں‘ خیر ہی کی طرف میرارخ کر۔ ‘‘
گاڑی آگئی‘ مسافروں کو ایذادئیے بغیر سوار ہوئے‘ سامان کو قرینہ سے رکھا‘ بقدر ضرورت جگہ گھیری‘ وضو اور نماز کا انتظام کر لیا‘ سفر کے اس ہنگامہ اور شوروغل میں بھی اپنے سفر کی عظمت‘ اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف توجہ اور اپنی بے بسی کا احساس قائم ہے‘ لوگوں سے محبت کے ساتھ رخصت ہوئے اور سفر کی کامیابی اور مقبولیت کے لیے خودان سے دعا کی درخواست کی‘ اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ ان سادہ دل بندوں میں کتنے مقبول بار گاہ ہوں گے اور کتنوں کے جسم یہاں اور دل وہاں ہوں گے اور کتنے بہت سے حجاج سے افضل ہوں گے۔ گاڑی روانہ ہوئی‘ اپنے ہم سفروں سے تعارف ہوا‘ ان کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ سفر کی سنت اور حکم ہے کہ ساتھیوں میں سے ایک کو سفر کا امیر بنایا جائے سب نے اتفاق کیا اور ایک صاحب علم اور منتظم رفیق کو امیر بنایا انہوں نے سب کی خدمت وراحت کا عزم کیا‘ حج کے رفیقوں کو مخاطب کر کے اس سفر کی عظمت اور اس کے آداب وحقوق مختصر طریقے پر بیان کیے‘ نماز کا وقت آیا‘ ساتھیوں کو نماز کی طرف متوجہ کیا اور اعلان کیا کہ انشاء اللہ نماز جماعت کے ساتھ ہوگی۔ گاڑی جنکشن پر پہنچنے والی ہے‘ گاڑی ٹھہری‘ اپنی جگہ کے محفوظ رہنے کا انتظام کیا۔ سب نے وضو کیا۔ پلیٹ فارم پر اذان ہوئی امام نے وقت کا خیال کرتے ہوئے مختصر نماز پڑھائی‘ لوگ اپنی اپنی جگہ آگئے‘ موقع ہوا تو سنتیں اور نوافل کھڑے بیٹھے پڑھ لیے۔ اگلی نماز کے وقت اتر کر پڑھنے کی مہلت نہ تھی۔ گاڑی کے اندر ہی جماعت کا اہتمام ہوا مسافروں سے کہہ سن کر جگہ کی‘ اور فرض کھڑے ہو کر ادا کیے بعض نمازوں میںسب نے ایک ہی جماعت سے نماز پڑھی‘ بعض اوقات دو دو تین تین نے مل کر ایک جماعت کرلی‘ رات کو سونے میں‘ اترنے اور چڑھنے میں کسی چیز میں بھی کشمکش کی نوبت نہیں پیش آئی۔ لاَ جِدَالُ فِی الْحَجِّ (حج میں لڑائی جھگڑا نہیں) کی مشق یہیں سے شروع ہو گئی‘ الحمد للہ رفیقوں کو اعتماد اور مسافروں کو انس ہوگیا اور اس سے خود کو بھی راحت ملی اور دوسروں کو بھی عافیت ہوئی اور زیادہ خرچ کرنے سے بھی جو آرام نہ ملتا وہ ایثار وخدمت سے ملا۔ کم خرچ بالا نشین اسی کو کہتے ہیں۔ راستہ میں دین ہی کاتذکرہ اور دین ہی کا مشغلہ رہا۔ شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحبa کی ’’ فضائل حج‘‘ مولانا