گھر جائے اور اپنی شامت اعمال سے خالی ہاتھ آئے بلکہ گناہوں کی گٹھڑی الٹی پیٹھ پر لاد کر لائے۔
تہمتیں چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لیے آئے تھے اور کیا کر چلے
اور جیت بھی ایسی کہ کوئی فتح اور کامرانی اس کے برابر نہیں‘ گناہوں سے پاک دھویا دھلایا جیسے آج ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے۔
((مَنْ حَجَّ لِلّٰہِ فَلَمْ یَرْفَثْ وَلَمْ یَفْسُقُ رَجَعَ کَیَوْمٍ وَلَدَتْہُ اُمُّہٗ))
(بخاری ومسلم)
’’جس شخص نے محض اللہ کی خوشنودی کے لیے حج کیا اور بے حیائی اور گناہ سے محفوظ رہا‘ تو وہ پاک ہو کر ایسا لوٹتا ہے جیسا کہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہونے کے روز تھا۔‘‘
((اَلْحَجُّ الْمَبْرُوْرِ لَیْسَ لَہُ الْجَزَائُ اِلَّا الْجَنَّۃَ))
’’حج مقبول کی جزا جنت ہے۔‘‘
اس سفر کے لیے جو کچھ بھی مانگا جائے اور جس طرح دل کھول کرمانگا جائے کم ہے‘ مگر ناتجربہ کار عقل‘ پریشان دماغ‘ مضطرب دل‘ تھکا ہوا جسم‘ وقت تھوڑا ‘ کہنا بہت‘ کہیں ایسا نہ ہو کہ غیر ضروری باتیں زبان پر آجائیں اور ضروری باتیں رہ جائیں۔ لیکن قربان رحمۃ للعالمینؐ کے کہ جیسے ہر دینی و دنیاوی ضرورت کے لیے جچی تلی دعائیں اور ہر شعبہ زندگی کے لیے منتخب دعائیہ الفاظ امت کو عطا کر گئے‘ سفر کی بھی ایسی مکمل دعا تعلیم کر گئے جس میں نہ کسی اضافہ کی ضرورت ہے‘ نہ کسی ترمیم کی۔ اور صدہا احسانات کے ساتھ اس احسان کا بھی استحضار کر کے محبت وعظمت کے ساتھ درود پڑھ کر یہ مسنون و ماثور الفاظ کہے:
((اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَسْئَالُکَ فِیْ سَفَرِنَا ھٰذَا الْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَمِنَ الْعَمَلِ مَاتُحِبُّ وَتَرْضٰی اَللّٰھُمَّ ہَوِّنْ عَلَیْنَا سَفَرَنَا ھٰذَا وَاَطْوِعْنَا بُعْدَہٗ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ الصَّاحِبِ فِی السَّفَرِ وَالْخَلِیْفَۃَ فِی الْاَھْلِ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ وَعْثَائِ السَّفَرِ وَکَابَۃِ الْمَنْظَرِ وَسُوْئِ الْمُنْقَلِبِ فِی الْمَالِ وَالْاَھْلِ وَالْوَلَدِ)) (مسلم)
’’اے اللہ! ہم تجھ سے اس سفر میں نیکی اور احتیاط کے طالب ہیں اور ایسے اعمال کے جو تجھ پسند ہوں۔ اے اللہ! ہمارے سفر کو ہمارے لیے آسان اور ہلکا بنادے اور اس کی مسافت کو لپیٹ دے‘ اے اللہ! تو سفر میں بھی ہمارے ساتھ ساتھ ہے اور گھر میں بھی ہمارے پیچھے نگران اور خیال رکھنے والا ہے‘ اے اللہ! میں تجھ سے سفر کی کلفت اور ایسی چیز سے پناہ چاہتا ہوں جس کے دیکھنے سے کوفت ہو اور مال واہل وعیال کی طرف بری واپسی سے۔ ‘‘
گھر سے رخصت ہوئے‘ سب کو اللہ کے حوالے کیا اور اللہ کے حفظ وامان میں دیا۔ رخصت کرنے والوں نے بھی مسنون الفاظ میں اللہ کے گھر کے مسافر کو اللہ کی ودیعت وحفاظت میں دیا اور کہا:
((اَسْتَوْدِعِ اللّٰہَ دِیْنَکَ وَاَمَانَتَکَ وَخَوَاتِیْمُ اَعْمَالِکَ))
’’میں اللہ کی امانت میں دیتا ہوں‘ تمہارا دین‘ اور تمہاری امانت‘ اور تمہارے اعمال کا انجام۔‘‘