قدرتی طور پر آپ کے لیے بڑا سانحہ ہوگا۔ بہرحال جب وہ دن آئے تو اس روز خصوصیت اور خاص اہتمام سے آپ رخصتی ہی کے لیے مسجد شریف میں حاضر ہوں‘ پہلے دو رکعت نماز اگر ہو سکے تو محراب نبویؐ میں ورنہ اس کے آس پاس روضۃ الجنہ میں کہیں پڑھیں اور اپنی دعائوں کے ساتھ خاص طور سے یہ دعا بھی
۱؎ مدینہ طیبہ میں غربت وافلاس کا یہ حال ۶۸ ھ (۱۹۴۹ء) میں دیکھا تھا لیکن اس کے ۱۴ سال بعد ۱۹۶۲ء میں جب حاضری ہوئی تو دیکھا کہ اب اس فقر کانشان بھی نہیں ہے بلکہ اس کے بجائے عام خوشحالی ہے۔ نعمانی
کریں کہ:
’’اے اللہ! تیرے محبوب رسولؐ اور ان کی اس مسجد اور ان کے اس شہر اور شہر والوں کے حقوق وآداب کی ادائیگی میں جو کوتاہیاں مجھ سے ہوئیں ان کو اپنے خاص کرم سے معاف فرما‘ اور مجھے یہاں سے محروم واپس نہ فرما اور میری یہ حاضری آخری حاضری نہ ہو بلکہ اے میرے کریم مولا ! اس کے بعد بھی مجھے تو حاضری کی توفیق عطا فرما اور قیامت میں اپنے رسولؐ کی شفاعت اور آپ کا قرب مجھے نصیب فرما۔‘‘
اس کے بعد آپ مواجہہ شریف میں آئیں اور سلام عرض کریں‘ اور استغفار اور شفاعت کی پھر درخواست کریں اور یہاں کے ادب اور مقام کی عظمت کا لحاظ رکھتے ہوئے اور بھی جو کچھ عرض کرنا ہو عرض کریں اور استدعا کریں کہ حضور والا میرے حج وزیارت کی قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ میری یہ حاضری آخری نہ ہو بلکہ اس کے بعد بھی مجھے بلایا جائے۔
اس وقت جس قدر آپ کا دل غمگین اور شکستہ ہو گا اور آنکھیں جتنی اشکبار ہوں گی انشاء اللہ اسی قدر رحمۃ للعالمینؐ کی رحمت وشفقت آپ کی طرف متوجہ ہو گی۔
اس کے بعد یہ تصور کرتے ہوئے کہ جس ملک میں میں رہتا ہوں گویا اسی میں شہادت حق اور دین کی خدمت و نصرت پر مامور ہوں و طن روانہ ہو جائیے اور دل غمگین کو تسکین دیجئے کہ اگرچہ جسم میرا مدینہ طیبہ سے دور رہے گا لیکن میری روح انشاء اللہ کبھی دور نہ ہوگی اور ہزاروں میل دور سے بھی میرا سلام اور میرا پیام اللہ کے فرشتوں کے ذریعے انشاء اللہ حضور eکو پہنچا کرے گا۔
((اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ نِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ وَاٰلِہٖ وَاَصْحَابِہٖ وَبَارِکْ وَسَلِّمْ))
اپنے گھر سے
بیت اللہ _