منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
ایک بار حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کے بہت سے خلفاء علماء موجود تھے۔ خواجہ صاحب نے ہم لوگوں کو خوب ہنسایا، پھر پوچھا کہ اچھا بتاؤ کہ اس ہنسنے کی حالت میں کون کون باخدا تھا اور کون اللہ سے غافل ہوگیا تھا؟ مفتی صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ ہم لوگ مارے ڈر کے خاموش تھے۔ پھر خواجہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ الحمدللہ! اس ہنسنے کی حالت میں بھی میرا دل اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں تھا۔ جیسے چھوٹے بچے ابا کے سامنے ہنس رہے ہوں تو ابا خوش ہوتے ہیں۔ اسی طرح اللہ والے جب ہنستے ہیں تو سمجھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آسمان پر خوش ہورہے ہیں کہ میرے بندے کیسا آپس میں ہنس رہے ہیں۔ وہ ہنسنے میں بھی باخدا ہیں۔ پھر حضرت خواجہ صاحب نے یہ شعر پڑھا اور اس کیفیت کو تعبیر کیا ؎ہنسی بھی ہے میرے لب پہ ہر دم اور آنکھ بھی میری تر نہیں ہے مگر جو دل رو رہا ہے پیہم کسی کو اس کی خبر نہیں ہے میں عرض کرتا ہوں کہ خوب ہنسو لیکن گناہ نہ کرو۔ جب کوئی حسین لڑکی سامنے آئے تو نظر بچالو اور فوراً میرا یہ مصرع پڑھو ؏ سڑنے والی لاشوں سے دل کا لگانا کیا ایسی دنیا سے کیا دل لگانا قبرستان میں یہ سڑیں گی یا نہیں؟ اگر ان سڑنے والی لاشوں کے ڈسٹمپر اور رنگ و روغن پر ہم مریں گے تو اللہ سے محروم رہیں گے۔ سوچ لیجیے فائدہ کس میں ہے؟ ان عاجزوں اور مُردوں پر گدھ کی طرح کب تک پڑے رہوگے؟ کب تک ان مردہ لاشوں کو کھاتے رہوگے؟کب بازِشاہی بنوگے؟ ایسانہ ہو کہ اچانک موت آجائے۔ پھر کفِ افسوس ملوگے اور پھر دوبارہ زندگی نہیں ملے گی۔ ولی اللہ بننے کے لیے اللہ دوبارہ حیات نہیں دے گا۔ اب میرے تین جملے سن لیجیے: جس دنیا سے ہمیشہ کے لیے جانا اور پھر لوٹ کر کبھی نہ آنا، ایسی دنیا سے دل کا کیا لگانا۔ یہ تین جملے ہدایت کے لیے کافی ہیں، اگر ولی اللہ بننا ہے تو اسی حیات میں بننا ہے، مرنے کے بعد کوئی دوبارہ نہیں آنے پائے گا۔ پھر قیامت تک حسرت وافسوس ہے، اور میدانِ