منازل سلوک |
ہم نوٹ : |
|
اور اس وقت اللہ تعالیٰ سے سودا کرلیں کہ اے اللہ! بصارت کی حلاوت یعنی آنکھوں کی مٹھاس تو میں نے آپ کو دے دی، اب آپ مجھے حلاوتِ ایمانی یعنی ایمان کی مٹھاس عطا فرمادیجیے۔ اپنا ایک اُردو شعر یاد آیا ؎جب آگئے وہ سامنے نابینا بن گئے جب ہٹ گئے وہ سامنے سے بینا بن گئے نابینا کیسے بنیں؟یعنی نظریں جھکالو جب کوئی نامناسب شکل سامنے آئے، لیکن موٹر چلانے والا نابینا نہ بنے،اس کے لیے معافی ہے، بس وہ سامنے نظر رکھے اِدھر اُدھر نہ دیکھے، پھر بھی نفس حاشیہ نگاہ سے اور زاویہ نگاہ سے کچھ چرائے گا، اس کی ان شاء اللہ تعالیٰ معافی ہوجائے گی، توبہ کرلے کہ اے اللہ! میں نے نظر کو سامنے رکھا، قصداً نظر نہیں ڈالی لیکن پھر بھی میرے نفس نے جو حرام مال چرایا ہو میرے مستلذاتِ محرمہ مسروقہ کو آپ معاف فرمادیجیے یعنی حرام لذت کی چوری کا مال جو نفس نے حاصل کیا ہو آپ اس کو معاف کردیجیے کیوں کہ اس وقت اس پر اختیار نہیں تھا، اگر نظر جھکاتا تو تصادم ہوجاتا۔ حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ اگر کوئی واقعی سچا اللہ والا ہے لیکن کمزور ہے اور تسبیح پڑھتا ہوا جارہا ہے کہ ایک حسین تگڑی عورت نے اس کو بُری نیت سے دیکھا اور لپٹ گئی اور اس کو پٹخ دیا۔ یہ مفروضہ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ بیان فرمارہے ہیں اصلاحِ اُمت کے لیے،اور اس کے سینے پر بیٹھ گئی اور کہا اے ملّا! تم بہت نظر بچاتے ہو اور پوری طاقت سے اس کی آنکھیں کھول کر کہا کہ اب دیکھ مجھے، دیکھتی ہوں کہ اب کیسے نہیں دیکھے گا۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اگر وہ صاحبِ نسبت ہے تو اپنی شعاعِ بصریہ پر اللہ تعالیٰ کی عظمت کو غالب رکھے گا اور اچٹی پچٹی سطحی نظر جو غیر اختیاری ہے ڈالے گا، باریک نظر نہیں ڈالے گا۔ یہ باتیں کون بیان کرسکتا ہے؟ ایسی باتیں اللہ تعالیٰ کے بڑے اولیاء بیان کرتے ہیں جو اس راستے سے گزرے ہوئے ہیں جن کو ایسا ایمان حاصل ہے۔ غرض اللہ تعالیٰ کے قرب وولایت کی بنیاد تقویٰ یعنی گناہوں کو چھوڑنا ہے۔ بتائیے ایئرکنڈیشن والے قصہ سے یہ سبق ملا کہ نہیں؟یہ نصیحت ملی کہ نہیں؟ اور نصیحت بھی کس کی