لرجل:’’أدّب ابنک فإنک مسؤل عن ولدک:ماذا أدّبتہ؟ وماذا علّمتہ؟ ‘‘۔(شعب الإیمان للبیہقي، باب فيحقوق الأولاد،رقم الحدیث:8662،6؍400،دارالکتب العلمیۃ)
فرمایا:’’اپنی اولاد کوادب سکھلاؤ، قیامت والے دن تم سے تمہاری اولاد کے بارے میں پوچھا جائے گا،کہ تم نے اسے کیا ادب سکھلایا؟ اور کس علم کی تعلیم دی؟‘‘۔
مذکورہ احادیث میں اچھا نام رکھنے ، ادب سکھلانے، دینی تعلیم دینے کا ذکر ہے، اس کے علاوہ احادیث ِ مبارکہ میں بچوں کی تربیت سے متعلق بہت سارے احکام مذکورہیں ،مثلاً:سب سے پہلے کلمہ طیبہ’’لا إلہ إلا اللہ‘‘ سکھلانا، ایمان کی باتیں سکھلانا، قرآنِ پاک سکھلانا، نماز سکھلانا اور اس کی عادت ڈالنا،ان کی اخلاقی تربیت کی خاطر ان کے بستر (بلوغت سے پہلے ہی) الگ کر دینا وغیرہ و غیرہ۔ یہ وہ تربیتی اعمال ہیں جن کے اختیار کرنے کا حکم بچے کے بالغ ہونے سے پہلے ہی دے دیا گیا ہے۔
اگر بچوں کی تربیت اچھے طریقے سے کر دی جائے تو جہاں یہ بچہ ایک انسانِ کامل اور ایک فردِ کامل بنے گا، وہیں یہ بچہ ایک صالح معاشرے کے لیے ایک مضبوط بنیاد بھی ثابت ہو گا۔یہ بچہ خود بامقصد زندگی گذارنے کے ساتھ ساتھ بہت سارے دیگر انسانوں کی بھلائی اور خیر خواہی والے کاموں کا ذریعہ بنتا ہے۔اس کے برخلاف اگر اس کی صحیح اور اچھی تربیت نہ کی گئی تو سب سے پہلے اس کا وجود معاشرے کے لیے بوجھ اور وبال بنے گااور خود اس کی زندگی جانوروں والی زندگی ہو گی، ایسے فرد سے خیر کی توقع ایک عبث کام ہو گا۔
نیز! اولاد کی دینی تربیت کے باعث والدین کی دنیا میں بھی نیک نامی ہو گی اور