{وَأَمَّّا الْجِدَارُ فَکَانَ لِغُلامَیْنِ یَتِیْمَیْنِ فِيْ الْمَدِیْنَۃِ وَکَانَ تَحْتَہٗ کَنْزٌ لَہُمَا وَکَانَ أَبُوْھُمَا صَالِحاً فَأَرَادَ رَبُّکَ أَنْ یَبْلُغَا أَشُدَّھُمَا وَیَسْتَخْرِجَاکَنْزَھُمَا رَحْمَۃً مِنْ رَّبِّکَ}(الکھف:82)
کہ اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ مدفون تھا جو دو یتیم بچوں کی ملکیت تھا،اور ان کا باپ ایک نیک آدمی تھا، اس نے مرنے سے قبل اپنے ان نابالغ بچوں کے لئے وہ خزانہ دفن کیا تھا کہ بلوغت کے بعدوہ اسے نکال لیں گے اور وہ(خزانہ) ان کے کام آ ئے گا۔ اس پر نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ان بچوں کا باپ نیک آدمی تھا،جس کی نیکی کا یہ صلہ دیاگیا کہ اس کے مال کی حفاظت کی گئی جو کہ بطورِ امانت رکھا گیا تھا تاکہ بوقت ضرورت اس کی اولاد کے کام آئے، جبکہ بعض روایات میں آتا ہے کہ یہ ساتویں پشت کاباپ تھا،اور اس کی نیکی کے بارے میں تفاسیر میں یہ آتا ہے کہ ’’لوگ اس کے پاس امانتیں رکھواتے تھے اور وہ بغیر کسی خیانت کے لوگوں کی امانتیں ان کو واپس کر دیتا تھا‘‘(روح المعاني،سورۃ الکہف:۲۸:۱۱؍۹۶۳داراحیاء التراث)۔
الغرض بات یہ چل رہی تھی کہ’’ احکامات پر چلنے کے لئے’’ مطلوبہ استعداد (یعنی: ایمان)کا حصول‘‘ اس انسان کے اندر اس کے وجود میں آنے سے قبل ہی ہونا شروع ہو جاتا ہے‘‘ جو کہ اس کے والدین کے ذریعے ہوتا ہے،لہٰذا ماں اور باپ ،اگر یہ چاہتے ہوں کہ ان کی اولاد نیک و کار ہو اور ا ن کی فرماں بردار ہو، تو دونوں کے ذمے یہ بات لازم ہے کہ جہاں وہ خود اپنے آپ کو گناہوں سے بچاتے ہوئے نیک کاموں کو کریں ،وہاں اولاد سے متعلق احکاماتِ الٰہیہ کو بھی پورا کریں اور اولاد سے متعلق منہیات سے بھی بچیں ۔
چناں چہ ذیل میں سب سے پہلے شریعت کی نظر میں اولاد کے حصول کا مقصد اور