اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
سے اس جاں گداز سانحے کی اطلاع ملی، جنازے میں شرکت ممکن نہیں تھی، وہیں مسجد نبوی میں حسب استطاعت دعا و ایصال ثواب کی توفیق ہوئی۔ چند روز بعد پاکستان واپسی ہوئی تو ان کی خانقاہ میں ان کے لائق و فائق فرزند جناب مولانا محمد مظہر صاحب اور ان کے دیگر خلفاء کی خدمت میں حاضری دی تو مولانا محمد مظہر صاحب نے بتایا کہ حضرت حکیم صاحب نے یہ تمنا ظاہر فرمائی تھی کہ ان کا انتقال پیر کے دن ہو،(کیونکہ حضور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات بھی پیر کے دن ہوئی تھی) اس کے بعد علالت کے آخری دنوں میں جب ذرا ہوش آیا توپوچھا کہ ’’ آج کونسا دن ہے ؟‘‘ جواب ملا کہ بدھ ہے ، تو خاموش ہوگئے، پھر دو دن بعد ہوش آیا تو پوچھا تو بتایا گیا کہ جمعہ ہے ، پھر خاموش ہوگئے بظاہر وہ پیر کے دن کے انتظار میں تھے، اور اللہ تبار ک وتعالیٰ نے ان کی یہ تمنا اس طرح پوری فرمائی کہ سکراتِ موت اتوار کا دن گزرنے کے بعد پیر کی شب میں طاری ہوئے، اور اسی دن انہوں جان جاں آفریں کے سپرد کردی ،رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔ آج حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب قدس سرہ ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں ، لیکن انہوں نے بے شمار افادات کا جو ذخیرہ اور اپنی تربیت سے بنائے ہوئے جوانسان چھوڑے ہیں ، ان کی بنا پر ان کا تذکرہ اور ان کے فیوض انشاء اللہ زندہ جاوید رہیں گے ؎ ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است بر جریدۂ عالم دوامِ ما‘‘