اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
نوبت بھی کم آتی ہے ، اس نے آپ کے پاؤں کیسے دبائے ؟ حضرتؒ نے فرمایا کہ اس تاجر نے میرا پاؤں اس لئے دبایا کہ میں نے ا س کی جیب نہیں دبائی۔(فغان اختر/۴۸۸-۴۹۰) (۶) اسی طرح افریقہ میں جب حضرت والاؒ پہلی مرتبہ تشریف لے گئے توایک صاحب نے کہا کہ حضرت: فلاں صاحب رئیس آدمی ہیں ، میں ان سے کہہ دیتا ہوں آپ کاجومدرسہ بن رہا ہے اس میں تعاون کردیں گے، وہ میرے دوست ہیں اور آپ سے محبت بھی رکھتے ہیں ، حضر تؒ نے فرمایا کہ تمہیں اس کی اجازت نہیں ہے اس لئے کہ ان کو معلوم ہے کہ میں کبھی کبھی تمہارے ہاں آکر ٹھرتا ہوں ، اور تم مجھ سے عقیدت بھی رکھتے ہو، تووہ تمہارے کہنے کومیرا کہنا ہی سمجھیں گے اور یہ سمجھیں گے کہ مولاناخود تو نہیں کہہ رہے ہیں لیکن اپنے ایجنٹ چھوڑ رکھے ہیں ، میں دین کو فروخت کرکے دنیا نہیں کماسکتا، اگر چہ یہ بھی دین ہی کا کام ہے کہ کسی کا پیسہ کسی دینی مصرف میں لگ جائے ، لیکن میں ان کے دل میں بدگمانی پیدا نہیں کرنا چاہتا پھر میری بات کا اثر ختم ہوجائے گا، میں دین کی قیمت پر کوئی چیز فروخت نہیں کرسکتا۔(فغان اختر/۴۹۱) (۷) ایک موقع پر دوبے حد دولت مند تاجر حضرت والا کی خدمت میں موجود تھے، کسی صاحب نے حضرت والا کے معتمد خاص جناب سید عشرت جمیل میر صاحب مد ظلہم سے مرعوبیت کے ساتھ ان دونوں کی مال داری کاذکر کیا، حضرت میر صاحب کو یہ با ت ناگوار گزری اور فرمایا کہ دیکھو حضرت ان دونوں سے کیا فرمارہے ہیں ؟ ایک شخص کو فرما رہے تھے کہ پائینچے ٹخنوں سے اوپر رکھا کریں ، اوردوسرے کو فرمارہے تھے کہ جب کسی دینی خادم کے پاس حاضر ہو توسر ڈھانک کر جایا کرو، وہ مرعوب شخص حیرت و شرمندگی کی تصویر بن کر رہ گیا۔(ایضاً) ان واقعات سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے حضرت والا کا مذاق اور مزاج کیاتھا، اور اللہ نے ا ستغناء ورع اور زہد کی کیسی نعمت سے آپ کومالامال فرمایا تھا، اور پھر اسی