اختر تاباں |
ذکرہ عا |
|
حقیقتاً بدنظری ام الخبائث ہی ہے ، جتنی بھی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں اسی آنکھ سے پیدا ہوتی ہیں ، آنکھ ہی دیکھتی ہے اور سب کچھ اس کے بعد عمل پیدا ہوتا ہے ، جب تک آنکھ کی حفاظت نہ ہوگی، انسان کی اصلاح نہیں ہوسکتی، میرا یہ تاثر اسی خانقاہ سے ہوا، میں نے خانقاہ امدادیہ اشرفیہ کراچی کی خصوصیت میں عشق و محبت، للہیت، فنائیت، گڑ گڑاہٹ، تڑپ، بے چینی، بے قراری پائی ہے ، یہ اس خانقاہ کی خصوصی علامت ہے ، اور جب بھی میں آیا اس میں ہمیشہ اضافہ ہی پایا ہے ۔ اللہم زد فزد۔ (فغان اختر/۱۱۱) حضرت والا کا ایک مختصر جیبی سائز کا رسالہ’’ بدنظری کے چودہ نقصانات‘‘ ہر خاص و عام کے لئے عظیم تحفہ کا مقام رکھتا ہے ، ان نقصانات میں اللہ کی نافرمانی، امانت میں خیانت، ملعون کے خطاب کامستحقبن جانا، حماقت وبدعقلی، اللہ کے غضب و لعنت کا مستحق ہوجانا، دل کی کمزوری اور بیماری،طبی نقصان: غدود ومثانہ کا متورم ہوجانا، سرعت انزال اور مشت زنی کا مرض، بینائی کونقصان پہونچنا، ناشکری میں ابتلاء،انجام کار زنا میں مبتلا ہوجانا نمایاں ہیں ۔ حضرت کے یہ جملے کس قدر حکیمانہ ہیں : ’’ بد نظری بد فعلی کی پہلی منزل ہے ،اور آخری اسٹیشن بدفعلی کا ارتکاب ہے جہاں شرمگاہیں ننگی ہوجاتی ہیں اور آدمی دونوں جہاں میں رسوا ہوجاتا ہے ، اس لئے اللہ تعالیٰ نے گناہ کی پہلی منزل ہی کو حرام فرمادیا کیونکہ بدنظری ایسا آٹومیٹک یعنی خود کار زینہ ہے کہ جس پر قدم رکھتے ہی آدمی سب سے آخری منزل پر پہنچ جاتا ہے، جس فعل کی ابتداء ہی غلط ہو اس کی انتہا کیسے صحیح ہوسکتی ہے ؟ اس پر میرا شعر ہے ؎ عش بتاں کی منزلیں ختم ہیں سب گناہ پر جس کی ہو ابتداء غلط کیسے صحیح ہو انتہا ( بدنظری/۱۹)