زندہ نہیں رہ سکتے مشتری، زحل، یورینس، نسیچوں اور پلوٹو سورج سے بہت دور ہیں جس کی وجہ سے وہاں مناسب گرمی نہیں پہنچ پاتی اس لئے وہ سارے بہت سرد ہیں ، وہاں جیوان برف بن جائے گا ان سیاروں میں ہائیڈوجن اور ہیلیم جیسی زہریلی گیس کی بھر مار ہے جس سے کسی کا زندہ رہنا مشکل ہے(۱)
اس لئے سردی گرمی اور گیس کے اعتبار سے لے دے کر زمین ہی انسان کے لئے قابل رہائش رہ جاتی ہے ممکن ہے کہ کسی اور سورج یا ستارے کے ساتھ زمین ہو اور وہاں پر حیات وزندگی کے اسباب ہوں جس کی تحقیق سائنس ابھی تک نہیں کرپائی ہے۔
زمین کے اوپر تقریباً 30میل اوپر آکسیجن گیس کی ایک موٹی پٹی ہے جس کو اوژن لائر Ozone Layerکہتے ہیں اوپر سے سورج کی تیز اور نقصان دہ شعاعیں جو آتیں ہیں اوژن لائر اس کو جذب کرلیتی ہے اور صرف وہی شعاعیں زمین پر آنے دیتی ہے جو انسان اور حیوانات کے لئے مفید ہیں تو اوژن لائر بھی حیوانی زندگی کے لئے زمین کے گرد بہت مفید چیز ہے۔
نوٹ : (۱)تفصیل کی لئے مصنف کی کتاب فلکیات جدیدہ دیکھیں
جس طرح انڈے کے اندر پتلا مادہ ہوتا ہے اور اوپر سخت چھلکا ہوتا ہے اسی طرح زمین کے اندر بھی پتلا مادہ ہے اور انتہائی گرم ہے، اور اوپر سخت چھلکا ہوتا ہے اسی طرح زمین کے اندر بھی پتلا مادہ ہے اور انتہائی گرم ہے، اور اوپر اس کا چھلکا ہے جو مناسب سخت ہے اسی چھلکے پر سمندر، پہاڑ، نباتات اور دیگر اسباب رہائش ہیں حیرت کی بات یہ ہے کہ یہ چھلکا پندرہ بڑے بڑے ٹکروں میں ٹوٹا ہواہے اور جہاں شگاف ہے وہاں سے اندر سے گرم مادہ نکلتارہتا ہے۔ اگر یہ ٹکڑے نیچے کے گرم مادے میں دھنس جائیں تو اہل زمین اس میں دھنس کر ہلاک ہوجائے لیکن خداوند قدوس ان ٹکڑوں کو اپنی قدرت سے تھامے ہوئے ہے اور ان ہلاکتوں کے باوجود انسان کے لئے زندگی کے اسباب فراہم کئے ہوئے ہے۔
اس چھلکے کو نہ پانی کی طرح نرم بنایا کہ آدمی دھنس جائے نہ پتھر کی طرح سخت بنایا کہ اس پر چلنا مشکل ہو نہ نیچے کے مادے کی طرح گرم اور پتلا بنایا کہ آدمی جل جائے بل کہ انسانی رہائش کے لئے اس کا فرش بچھونے کی طرح بنادیا پھر پانی، ہوا، آکسیجن، سردی، گرمی، اور تمام چیزیں اتنی معتدل اور مناسب انداز میں پیدا کیں کہ بے ساختہ ان آیات کو ورد کرنے کا جی چاہتا ہے۔