پرانی فلکیات کا نظریہ تھا کہ زمین اپنی جگہ پر ساکن ہے اور سورج اور چاند زمین کے گرد گھوم رہے ہیں ، جس سے سال بنتا ہے اور دن بنتے ہیں لیکن رب العالمین نے بہت پہلے اعلان کیا تھا کہ تم لوگ زمین اور پہاڑ کو ساکن سمجھ رہے ہو حالانکہ وہ بادل کی طرح فضا میں دوڑ رہی ہے ارشاد ربانی ہے وَتَرَی الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَۃً وَھِیَ تَمُرُّ مَرَّالسَّحَابِ (سورۃ النمل ۲۷ آیت ۸۸) ترجمہ: اور تو پہاڑوں کو دیکھ رہا ہے اور ان کے لئے خیال کررہا ہے کہ وہ جنبش نہیں کرتے ہیں حالانکہ وہ بادلوں کی طرح دوڑ رہے ہیں ۔ جب پہاڑ بادل کی طرح دوڑ رہا ہے تو اس کے ساتھ زمین بھی بادل کی طرح دوڑے گی کیوں کہ پہاڑ تو زمین میں کھونٹے کی طرح گڑاہوا ہے۔ اس لئے ثابت ہوا کہ زمین فضا میں بادل کی طرح بڑی تیزی سے دوڑرہی ہے۔ اس دوڑ میں سورج کے گرد زمین کی سالانہ گردش بھی شامل ہے، اور روزانہ کی یومیہ گردش بھی، جس کو زمین کی محوری گردش کہتے ہیں وہ بھی شامل ہے۔ حاصل یہ ہے کہ سائنس ابھی کہتی ہے کہ زمین گردش کررہی ہے جب کہ رب العالمین نے بہت پہلے اس کی طرف اشارہ کیا تھا بل کہ پرانی فلکیات کے خلاف اعلان کیا کہ زمین خود بھی محو گردش ہے۔ (نوٹ) تمام مفسرین نے اس آیت کو قیامت میں پہاڑدوڑنے کے بارے میں لیا ہے۔ لیکن ابھی پہاڑ دوڑ رہاہو اس معنی میں لینے کی بھی آیت میں گنجائش ہے۔ واللہ اعلم باالصواب۔
(۳) محوری گردش، زمین کی تیسری گردش یومیہ گردش ہے کہ زمین اپنی جگہ پر رہتی ہوئی چوبیس گھنٹے میں ایک چکر مار لیتی ہے جس سے دن اور رات بنتے ہیں اس کو زمین کی ’’ محوری گردش‘‘ کہتے ہیں محوری گردش میں زمین ایک منٹ میں ۱۷ میل دوڑتی ہے۔ اس گردش میں زمین کی جس جانب سورج کی روشنی پڑتی ہے اس جانب دن ہوتا ہے اور جس جانب سورج کی روشنی نہیں پڑتی ہے وہاں رات ہوتی ہے زمین یومیہ گردش میں سورج کے سامنے گھومتی ہے تورات ہٹتی جاتی ہے اور وہاں دن کا تڑکا آتاجاتاہے وہاں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دن رات کو دبوچ رہا ہو، یا دن رات پر لپٹا جارہا ہو۔ اسی طرح دن جب آگے ہٹتا جاتا ہے اور پیچھے سے رات آتی جاتی ہے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ رات دن کو آہستہ آہستہ دبوچ رہی ہو، یارات دن پر لپٹی جارہی ہے قرآن کریم نے زمین کی یومیہ گردش کے اسی منظر کو ان آیتوں میں پیش کیا ہے یُغْشِیْ الَّیْلَ النَّھَارَ یَطْلُبَہ حَثِیْثًا (سورۃ الاعراف ۷ آیت ۵۴) ترجمہ: ڈھانپ لیتا ہے رات سے دن کو وہ جلدی سے اسے