کچھ جلتی ہوئی حالت میں زمین پر سالم گرتے ہیں ۔ یہی گرتے ہوئے سنگریزے آدمی کو رات میں جلتا ہوا ستارہ کی طرح نظر آتے ہیں جس کو قرآن کریم شہاب ثاقب کہتے ہیں ، ہر سال تقریباً اٹھائیس ہزار ٹن شہاب ثاقب زمین پر گرتے ہیں اور ایک گھنٹے میں پوری زمین پر ساٹھ ہزار عدد شہاب ثاقب گرتے ہیں ۔
(۲) دوسرے شہاب ثاقب آوارہ گردچٹانیں ہیں ، سائنسی تحقیق یہ ہے کہ مریخ اور مشتری کے درمیان ہزاروں میل کی پٹی ہے جس میں پانچ ارب سے زیادہ آوارہ گرد چٹانیں موجود ہیں ۔ یہ سارے چٹانیں ایک ترتیب سے سورج کے گردگردش کرتے ہیں ، بہت سی چٹانوں کا مجموعہ خود مشتری کے آگے پیچھے بھی ہے جو مشتری کے مدار میں گردش کررہاہے یہ چٹانیں بھی اپنے مدار سے بہک کردوسرے سیارے کی طرف چلی جاتی ہیں اور کچھ زمین کی طرف آجاتی ہیں ، اور زمین سے پچاس میل اوپر ہوا اور آکسیجن سے رگڑ کھاکر جل اُٹھتی ہیں ، جس کو شہاب ثاقب کہتے ہیں ۔
نزول قرآن کے وقت آوارہ گرد چٹانوں کی تحقیق نہیں ہوئی تھی اس لئے شہاب ثاقب کے حقائق بیان کرنے میں مفسرین کو مشکلات پیش آئیں سائنسی تحقیقات نے اس راستے میں بڑی راہنمائی کی ۔
ممکن ہے یہ آوارہ گرد چٹانیں اور دمدار تارے کے سنگریزوں سے دوکام لئے جاتے ہوں ۔
(۱) شریر قوموں پر عذاب مثلاً قوم لوط وغیرہ پر ان کی شرارت کی بناپر یہی آوارہ گرد چٹانوں کی بارش برسادی ہو اور ساری قوم کو تباہ کردیا ہو ارشاد ربانی ہے۔ فَجَعَلْنَا عَالِیَھَا سَافِلَھَا وَاَمْطَرْنَا عَلَیْھِمْ حِجَارَۃً مِّنْ سِجِّیْلٍ (سورۃ الحجر ۱۵ آیت ۷۴) ترجمہ: چنانچہ ہم نے اس بستی کے اوپر کا تختہ نیچے کردیا اور ان قوموں پر کنکر کے پتھربرسائے ۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ قوم لوط پر آسمان سے پتھر برسائے گئے ہیں تو ممکن ہے کہ یہ وہی آوارہ گرد چٹانیں ہوں جس کو اللہ نے ان قوموں پر برسنے کا حکم دے دیاہو۔
دوسرا کام ان شہاب ثاقب یا آوارہ گرد چٹانوں سے آسمان کی حفاظت کالیتے ہوں کہ کوئی شیطان وحی الہی یا احکام خداوندی کو چراکر سننے کی کوشش کرتا ہے تو شہاب ثاقب کے ذریعہ اس کو مارا جاتا ہے جس کی وجہ سے یا تو شیطان مرجاتا ہے یا زخمی ہوکر بھاگتا ہے اور احکام خداوندی کی